Maktaba Wahhabi

430 - 924
اس واقعے میں ان علمائے کرام کے لیے بہت بڑی نصیحت موجود ہے کہ انسان کی عزت و احترام اس کے اپنے عقیدے اور منہج پر ڈٹے رہنے اور استقامت اختیار کرنے میں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مل کر یا ان کے سامنے انہی جیسی وضع قطع اور لباس وغیرہ میں مشابہت اختیار کرنے میں نہیں ہے۔ اسی طرح ایک مقام پر مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی زندگی کے بہت سے نصیحت آموز واقعات ذکر کرتے ہیں ، مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ ، مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں : ’’مولانا نذیر احمد املوی رحمہ اللہ کی وفات کا سب سے بڑا اثر جماعت اہلِ حدیث ہند کے تنظیمی اور تعمیری منصوبوں پر پڑا ہے۔ جماعت ایک ایسے مخلص اور فعال راہنما سے محروم ہو گئی ہے جن کا بدل اب ملک میں کوئی نظر نہیں آ رہا۔ کتنے لوگ ایسے ہیں جو مولانا کی وفات کی خبر پا کر سر تھام کر بیٹھ گئے(آج کل تو لوگ جماعتوں اور تنظیموں پر قابض لوگوں کی موت کی خود خواہش کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے اس کا سبب بھی ’’چمنستانِ حدیث‘‘ کے صفحات ہی سے پڑھیں ۔ ناقل)۔ ’’مولانا(نذیر احمد)رئیس(چودھری)نہیں تھے اور نہ انھوں نے کبھی اپنی عملی زندگی کو دنیا طلبی کا ذریعہ بنایا، حالاں کہ اگر وہ چاہتے تو کیا کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں اور نہ جاننے والوں کو جان لینا چاہیے کہ مولانا نے اپنا دل و دماغ، علم و فکر، جذبات و احساسات کے سارے گنج ہائے گراں مایہ کو اللہ کی رضا اور اس کے دین کی سربلندی اور ہندوستان میں جماعت موحدین کی ترقی کے لیے نثار کر دیا اور تمام عمر معمولی مشاہرے پر ہنس کر گزار دی۔ اس تھوڑے سے مشاہرے کا بھی خاصا حصہ وہ جماعتی امور کی نگرانی پر کسی نہ کسی حیثیت سے خرچ کرتے رہتے اور اس پر خوش ہوتے۔‘‘(ص: ۲۶۰) آج جو لوگ اپنے علمی یا دینی و مذہبی مقام و مرتبے کو دنیا طلبی اور جاہ پرستی کا ذریعہ بناتے ہیں اور دنیا داروں کی چوکھٹ پر اپنی علمی عظمتوں اور مذہبی شان و شوکت کو رسوا کرتے ہیں ، انھیں یہ واقعات بار بار پڑھنے چاہییں اور ان سے درس عبرت لینا چاہیے۔ انھیں مولانا نذیر احمد املوی رحمانی رحمہ اللہ کے دو واقعات کی مزید نشان دہی کرنا چاہتا ہوں ، جو ان کے اپنے عقیدے پر پختگی اور کلمہ حق کہنے میں جراَت مندانہ کردار ادا کرنے کی زبردست دلیل ہے۔ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ ، مولانا آزاد رحمانی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : ’’مولانا لکھنؤ کی دینی تعلیمی مجالس کے ممبر تھے۔ علی میاں ، مولانا منظور نعمانی، قاضی عدیل عباسی اور دوسرے نامور اہلِ علم کے ساتھ آپ بھی اس کی نشستوں میں شریک ہوتے رہے۔ بچوں کے لیے ابتدائی نصابِ تعلیم کی ایسی کتابوں کی تصنیف کا مسئلہ در پیش تھا، جو سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ بات یہ چل رہی تھی کہ دینیات کی تصنیف کس ڈھنگ سے کی جائے؟ کسی ممبر نے مشورہ دیا کہ دیو بندی عقائد کے مطابق انھیں لکھوا دیا جائے۔ مولانا نے فرمایا: اس میں تمام فقہی مسالک کی نمایندگی نہیں ہوتی۔ اس لیے یہ کتابیں دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوں گی۔ اس پر یہ ترمیم پیش ہوئی کہ دوسرے مسالک کی باتیں حاشیے پر لکھ دی جائیں ۔ مولانا نے فرمایا کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ کتابیں قرآن و سنت کے مطابق لکھوائی
Flag Counter