Maktaba Wahhabi

433 - 924
اس خواہش کو عملی صورت دینے کا فیصلہ کر لیا۔ دل میں یہ جذبہ شدت سے ابھرا کہ کسی نہ کسی طرح علم ضرور حاصل کرنا چاہیے، لیکن معاملہ یہ تھا کہ نہ کسی درس گاہ کا پتا تھا اور نہ کسی قصبے یا شہر کی راہ معلوم تھی، اب انھوں نے اپنی والدہ کے عطا کردہ بھنے ہوئے چنوں کے تھوڑے سے دانے صافے کے پلو میں باندھے، کسّی کندھے پر رکھی اور حسبِ معمول کھیتوں میں پہنچ گئے۔ پھر کسّی کھیت میں رکھی اور کسی کو بتائے بغیر انجانی راہوں پر روانہ ہو گئے۔ کچھ پتا نہیں کہ کدھر کا رخ ہے اور منزل کونسی ہے۔ زادِ راہ وہی بھنے ہوئے چنوں کے چند دانے ہیں ، کوئی پیسا پلے نہیں ، خالی ہاتھ اور خالی جیب، بالکل یہی حالت کہ پلے خرچ نہ بنھدے پنچھیتے درویش جنہاں تقویٰ رب دا اونہاں رزق ہمیش ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور دوسرے سے تیسرے گاؤں چلے جا رہے ہیں ، بھوک نے بھی زور باندھ رکھا ہے، مگر یہ کہیں ٹھہرتے نہیں اور نہ کسی سے روٹی کا ٹکڑا مانگتے ہیں ۔ با لآخر ایک گاؤں کی مسجد میں جا رکے اور نمازیوں سے کہا کہ وہ انھیں مسجد کے طہارت خانوں کی صفائی اور نمازیوں کے پانی بھرنے کے لیے بطور خادم رکھ لیں ۔ نمازیوں نے ان کے نام اور خاندان کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اپنا تعارف کرایا، اس پر جواب ملا کہ ہمیں خادم کی ضرورت تو ہے لیکن آپ سید زادے ہیں اور ہم سید زادے سے یہ خدمت نہیں لے سکتے۔۔۔۔ اب پھر وہاں سے چل پڑے اور روپڑ کے قریب موضع ’’سنانا‘‘ جا پہنچے۔ وہاں ایک عالمِ دین مولوی دین محمد رہتے تھے، ان سے دینیات کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ اسی دوران میں موضع ملک پور کے مولوی عبدالجبار سے کچھ کسبِ فیض کیا۔ وہاں ایک فائدہ یہ ہوا کہ گرد و پیش کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوئیں اور یہ بھی پتا چلا کہ ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں ’’لکھو کے‘‘ میں ایک مدرسہ جاری ہے، جس میں بہت بڑے عالم مولانا عطاء اللہ لکھوی رحمہ اللہ طلبا کو تعلیم دیتے ہیں ۔ اب یہ موضع ’’سنانا‘‘ سے نکلے اور چلتے پھرتے کسی نہ کسی طرح ’’لکھوکے‘‘ جا پہنچے۔ وہاں انھیں داخل تو کر لیا گیا اور تعلیم کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، لیکن کھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ یہ طلبا کے بچے کھچے ٹکڑے اکٹھے کرتے اور پانی میں بھگو کر ان سے اپنی بھوک مٹاتے اور استاد سے علمی پیاس بجھاتے۔ چونکہ علم کے لیے گھر سے بھاگ گئے تھے، لہٰذا اس صورتِ حال سے ہم آہنگی پیدا کر لی تھی اور دونوں طرف سے صلح و صفائی کے ساتھ معاملہ چل رہا تھا۔‘‘ الغرض اسی قسم کے نصیحت آموز واقعات سے بھرپور یہ ’’حدیث کا چمنستان‘‘ مہک رہا ہے، اب جس کے جی میں آئے، وہ اس کی خوشبو سے اپنے قلوب و اذہان کو معطر کر لے اور جس کا جی چاہے وہ انھیں محض ایک واقعہ یا تاریخ کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دے۔ ہم تو بزبانِ شاعر یہیں کہیں گے: اب جس کے جی میں آئے پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کر سرِ عام رکھ دیا اللہ تعالیٰ حضرت بھٹی صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے کہ انھوں نے ہمیں ہمارے بزرگوں سے ملا
Flag Counter