Maktaba Wahhabi

436 - 924
ان کی علمی زندگی کا تیسرا دور ۱۶؍ مارچ ۱۹۹۶ء کو ادارے سے علاحدگی کے بعد شروع ہو تا ہے، یہ ایک بھرپور دور ہے، جس میں انھوں نے جم کر اپنے من پسند مسلکی و علمی کام کیے اور اُن تمام لوگوں کی شخصیت نگاری کی جن کے ساتھ انھیں کام کرنے یا کسی بھی مرحلۂ عمر میں تعارف و یکجائی کے مواقع ملے تھے۔ یہی مرقعے محولہ بالا دو کتابوں کی صورت میں اہلِ علم تک پہنچے، جن سے مولانا اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی غیر معمولی یادداشت، نہایت باریک مشاہدے اور ایک سادہ و بے ریا دل رکھنے والی دوست دار شخصیت کا اندازہ ہوا۔ پیشِ نظر مجموعہ اُن کی اسی شخصیت نگاری کا تیسرا نمونہ ہے، ابھی ایک اور مجموعہ اس کے بعد آنے والا ہے۔ ان تراجم میں حسبِ سابق زندگی میں کسی بھی مرحلے پر مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ سے ملنے والی معروف، کم معروف یا غیر معروف شخصیات دکھائی دیتی ہیں ۔ ادارے سے وابستگی کے دوران میں چونکہ ان کا زیادہ رابطہ اہلِ علم سے رہا، اس لیے ان کی پہلی کتابوں میں اہلِ علم زیادہ مقدار میں دکھائی دیتے ہیں ۔ باقی زندگی میں انھوں نے اپنی یادوں کے خزینے سے چن چن کر چنگاریاں اکٹھی کی ہیں ، اندیشہ تھا کہ اگر یہ چنگاریاں سمیٹی نہ جاسکیں تو وقت کا سفاک عمل انھیں راکھ بنا کر رکھ دے گا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے توانا اور شگفتہ قلم نے ان چنگاریوں میں زندگی کے شعلے تلاش کیے ہیں ۔ ان کا موضوع بننے والی شخصیت اکہری اور سپاٹ ہے یا رنگا رنگ، انھوں نے اسے اسی طرح رہنے دیا ہے، ہاں اپنی طرف سے اس کے خاندانی احوال اور کاروبارِ حیات میں اس کی کارکردگی کا کوئی گوشہ قاری سے مخفی نہیں رکھا۔ ان کا موضوع بننے والوں میں عام لوگ بھی ہیں اور اہلِ علم بھی، اہلِ سیاست بھی ہیں اور اہلِ تمدن بھی، وہ ان سب کو اپنے مشاہدے کی روشنی میں قاری سے متعارف کرواتے ہیں ، ان کا قلم محمد حسین آزاد رحمہ اللہ کی طرح الفاظ کے طوطے مینا نہیں بناتا نہ ہی انھیں عصمتِ چغتائی کی طرح کسی کی جنت دوزخ کا فیصلہ کرنا ہے نہ وہ اوپندر ناتھ اشک کی طرح زیرِ قلم شخصیات کو دشمن کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ وہ تو سیدھے سبھاؤ قاری کو اپنے موضوع سے ملوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی طرف سے مشاہدے کے علاوہ موضوع بنائی جانے والی شخصیت کے احوالِ حیات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ اس کوشش میں کہیں کہیں ان کا بیان خاص سپاٹ ہو جاتا ہے، لیکن جو شَے ان تعارف ناموں کو خاصے کی چیز بنا دیتی ہے، وہ جا بجا بکھری ہوئی معلومات ہیں ، جن کا تعلق ماضی قریب کی علمی تہذیبی اور سیاسی تاریخ سے بہت گہرا ہے، مثلاً: ’’نقوش ابو الوفائ‘‘ کیسے لکھی گئی۔ قاضی سلیمان منصور پوری صاحب رحمہ اللہ کی سیرت رحمۃ للعالمین کا انگریزی ترجمہ کس نے کیا۔ مولوی انشاء اللہ خان رحمہ اللہ کے اخبار وطن کی اشاعت کتنی تھی۔ پروفیسر سرور رحمہ اللہ کس طرح مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ تک پہنچے اور پھر عمر بھر ولی اللّٰہی افکار کی ترجمانی کرتے رہے۔ مارگریٹ مارکوئس، مریم جمیلہ رحمہ اللہ بننے سے پہلے کون کون سے مسلمان اسکالرز سے راہنمائی لیتی رہیں ۔ برصغیر کی آزادی میں جرمنی اور جاپان سے مدد لینے کے لیے سوبھاش چندر بوس ڈاڑھی چھوڑ کر اور مولوی ضیاء الدین بن کر ہندوستان سے کیسے فرار ہوئے، یہ اور اس
Flag Counter