Maktaba Wahhabi

437 - 924
طرح کی بہت سی معلومات اس کتاب کے اوراق میں بکھر ی ہوئی ملتی ہیں ۔ سوبھاش چندر بوس کے تذکرے میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بعض بہت دلچسپ باتیں لکھی ہیں ۔ سوبھاش بابو کو آزادی کے لیے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی جدوجہد سے اختلاف تھا۔ ان کا خیال تھا کہ حالات کے جبر نے انگریزی استعمار سے نجات کو تو یقینی بنا دیا ہے، مگر حقیقی آزادی خواب ہی رہے گی، کیوں کہ جمود کی قوتیں انگریز کے بعد اقتدار میں آجائیں گی اور یوں حقیقی انقلاب بے معنی اور بانجھ ہو کر رہ جائے گا۔ اس خیال کی اصابت اپنی جگہ لیکن سوبھاش بابو نے جو طریقِ کار اختیار کیا، وہ دورِ غلامی کی جذباتی فضا کا نتیجہ تھا، چناں چہ شورش کاشمیری رحمہ اللہ جیسے نوجوان اُن کی تحریک سے متاثر ہو کر ’’دہلی چلو‘‘ کی پکار پر نغمے اَلاپنے لگے۔ راقم نے ایک زمانے میں شورش کاشمیری رحمہ اللہ کی اس زمانے کی لکھی ہوئی کتاب بھی دیکھی تھی، جس کا نام سوبھاش بابو کی تحریک کے نام پر ’’دہلی چلو‘‘ رکھا گیا تھا۔ اسی زمانے کے ایک اخبار میں اس کتاب پر انور صابری کی منظوم تقریظ بھی دیکھی تھی ’’اپنی اس تصنیف تازہ میں یہ ہم سے آج بھی کہہ رہا ہے: ’’شورش شعلہ نوا دہلی چلو‘‘ پھر کبھی یہ کتاب دکھائی دی نہ اس کا تذکرہ۔ سامراج سے نجات کے لیے آزاد ہند فوج قائم کر کے پُرتشدد راستہ اختیار کرنے والے سوبھاش بابو اور اُن کے ہم خیال اگر آج پر تشدد طریق کار کے نتائج دیکھتے تو ضرور اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کرتے۔ میاں عبدالمجید مالواڈہ رحمہ اللہ(متوفی: ۲۲؍ جون ۱۹۹۲ء)کے تذکرے میں ان کے والدِ گرامی میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ(۱۹؍ اگست ۱۸۷۲ء ۔ ۲۸؍ جولائی ۱۹۷۱ء)کا ذکر بھی آیا ہے۔ مالواڈہ مرحوم لنکنزانّ میں قائدِ اعظم کے جونیئر معاصر اور لاہور میں مسلم لیگ کو ٹھکانا فراہم کرنے والے اوّلین راہنماؤں میں سے تھے۔(۲۹؍ اپریل ۱۹۳۶ء کو مسلم لیگ کا پہلا اجلاس لاہور میں انہی کی قیام گاہ پر منعقد ہوا، جس میں علامہ اقبال، لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور ملک برکت علی جیسے لوگ شامل تھے)ان کے نام خطوطِ مشاہیر کا جو ذخیرہ سامنے آیا، اس میں ۱۸۸۴ء سے لے کر قیامِ پاکستان تک کے زمانے کے نہایت اہم خطوط اور دستاویزات شامل تھیں ۔ اس ذخیرے کے تذکرے سے راقم کی یادوں کے ذخیرے میں بھی ایک ہلچل سی ہوئی اور وہ دن نگاہوں پر روشن ہونے لگے۔ جب اسّی کی دہائی میں اس ذخیرے کا علم ہوا اور ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ نے نوادر کے عنوان سے ۱۹۸۵ء میں ایک تعارفی مجموعہ شائع کیا، جس میں میاں عبدالعزیز صاحب رحمہ اللہ کے نام مشاہیر کے کچھ خطوط کے کچھ عکس نمونتاً شائع کیے گئے تھے۔ ان میں قائدِ اعظم، علامہ اقبال، نواب زادہ لیاقت علی خان، حکیم اجمل خان، سر محمد شفیع، مولانا غلام قادر گرامی، خواجہ حسن نظامی، سر شہاب الدین، شمس العلماء مولوی ممتاز علی غلام بھیک نیرنگ، عبدالمجید سالک، چوہدری افضل حق، خواجہ عبدالوحید اور دوسرے اکابرِ پنجاب کے خطوط شامل تھے۔ اسمبلی ہال کے سامنے سمٹ مینار کے قدموں میں واقع متحف یا عجائب کدے میں ۱۲ سے ۱۴؍ اگست ۱۹۸۵ء کو اس ذخیرے میں شامل دستاویزات، خطوط، کتابچوں اور اشتہارات کی ایک نمایش لگائی گئی تھی۔ راقم اس نمایش
Flag Counter