Maktaba Wahhabi

460 - 924
یہ ایک مسلّمہ تاریخی حقیقت ہے کہ پرتگیزوں کے ساحلِ ہند پر ورود سے قبل بحیرۂ روم، بحیرۂ اٹلانٹک، بحیرۂ قلزم، بحرِ ہند اور بحر الکاہل کے سینے پر عرب مسلمانوں کے سفینے تیرتے پھرتے تھے، جن کی ترک تازیوں کا سلسلہ چین اور جاوا تک پھیلا ہوا تھا۔ پھر حالات نے ایسے کروٹ لی کہ پرتگیزوں نے ان عرب جہاز رانوں کے بیڑے تباہ کر دیے اور سمندری تجارت پر قبضہ کر لیا۔ یہ ایک طویل داستان ہے، جوبہت سے تلخ حقائق اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ یہاں اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، صرف یہ بتانا مقصد ہے کہ ساحلِ ہند پر پہلی تجارتی یلغار کرنے والا یورپی قافلہ پرتگیزوں کا تھا۔ پھر ان کی جگہ ہالینڈ کے ولندیزیوں نے لی۔ ان کے بعد انگریز اور فرانسیسی جہاز ران بحرِ ہند میں وارد ہوئے۔ برصغیر کی سمندری تجارت کے اَکھاڑے میں ان دونوں یعنی انگریزوں اور فرانسیسیوں کے درمیان شدید مقابلہ ہوا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی بھرپور کوششیں کیں ۔ بالآخر اس کش مکش میں انگریز غالب آئے اور پھر آہستہ آہستہ وہ برصغیر پر قابض ہوگئے۔ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے، جو آگے چل کر برصغیر کی فرماں روا بن گئی، ۱۶۰۱ء میں ہندوستان کی طرف پہلے تجارتی جہاز روانہ کیے اور شروع ہی میں اسے بے پناہ منافع حاصل ہونے لگا۔ یہاں تک کہ بارھویں سفر میں ہر حصے دار کو ۳۳۴ فی صد منافع ہوا۔ اس منافع کی اصل وجہ یہ تھی کہ اس دور کے ہندوستانی تاجروں اور اس ملک کے مغل حکمرانوں نے انگریز تاجروں کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا اور اُن کو اپنے دامنِ محبت میں جگہ دی۔ جہانگیر بادشاہ کے عہد میں جب کپتان ہاکنز دربار میں پہنچا تو بادشاہ نے فراخ دلی سے اس کا خیر مقدم کیا۔ ۱۶۰۸ء میں اسے سورت میں ، جو اس زمانے میں مشہور بندرگاہ تھی، کوٹھی تعمیر کرنے کی اجازت ملی۔ اس سے پانچ سال بعد ۱۶۱۳ء میں سرطامس برطانوی سفیر کی حیثیت سے ہندوستان آیا تو جہانگیر اس کی شائستگی اور قابلیت سے بہت متاثر ہوا اور اسے ہندوستان کے اس مغل بادشاہ کی نجی مجلسوں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ اب سورت کے علاوہ احمد آباد، برہان پور، آگرہ، اجمیر، بمبئی اور کھمبائت وغیرہ شہروں میں انگریزوں کی کوٹھیاں اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تجارتی سامان کے لیے گودام تعمیر ہونے لگے۔ کمپنی کے ملازم اس نہایت سستے زمانے میں لاکھوں روپے کا لَین دَین کرتے تھے اور ان سے برصغیر کے تاجروں کی ہم دردیوں کا یہ حال تھا کہ کسی انگریز کو مکان نہ ملتا تو ہندوستانی تاجر اس کے لیے اپنا مکان خالی کر دیتا۔ قرض کی ضرورت ہوتی تو خوشی سے مطلوبہ رقم پیش کر دیتا یا اس کا ضامن ہوجاتا۔ ایسٹ انڈیاکمپنی نے بہت جلد بحری برتری حاصل کرلی تھی اور بحرِ ہند میں اس کے تجارتی جہاز دندناتے پھرتے تھے، پھر اس کے کارندے اس قدر جری ہوگئے تھے کہ مغل حکومت کے اہل کاروں کو آنکھیں دکھانے لگے تھے۔ انھوں نے ہندوستانی تاجروں کے جہازوں کو سمندر میں لوٹنا شروع کر دیا تھا اور وہ بحری قزاقی کا کھلم کھلا ارتکاب کرتے تھے۔
Flag Counter