Maktaba Wahhabi

461 - 924
اٹھارویں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا چراغ گل ہونے لگا تو برصغیر کے متعدد علاقوں میں نئی حکومتیں ظہور میں آگئیں ۔ مرہٹوں نے مغلوں کی شان و شوکت کے کھنڈروں پر اپنی طاقت کے محل تعمیر کیے، پورے مہاراشٹر اور وسطی ہند پر قبضہ جما لیا اور مالوہ اور گجرات تک تگ و تاز کی۔ نادر شاہ ایران سے چلا اور دلی کو تہہ وبالا کر ڈالا اور صدیوں کے جمع شدہ مال و متاع کو چشمِ زدن میں تاراج کرکے رکھ دیا۔ خود مغلوں نے جن لوگوں کو مختلف علاقوں اور صوبوں کے حاکم مقرر کیا تھا، وہ اپنی اپنی جگہ خود مختار بن بیٹھے۔ بنگال میں علی وردی خاں ، اودھ میں برہان الملک سعادت علی خاں ، روہیل کھنڈ میں افغان سردار اور دکن میں نظام الملک آصف جاہ نے بلا شرکت غیرے حکومت کی باگ دوڑ ہاتھ میں لی۔ دہلی کی مرکزی حکومت کی اطاعت سے منہ موڑا، خراج دینا بند کیا اور نذرانے ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس صورتِ حال سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز کارکنوں کے حوصلے بڑھے اور وہ براہِ راست ملکی سیاست میں دخل دینے لگے۔ جن علاقوں کی حکومتیں مالی لحاظ سے کمزور تھیں ، انگریز سرمایہ داروں نے ان کی روپے پیسے سے مدد کرنے اور انھیں قرض دینے کا سلسلہ شروع کیا، تاکہ یہ ان کے زیر بار احسان رہیں اور ان کے سامنے دم نہ مار سکیں ۔ قرض پر سود وصول کیا جاتا تھا اور پھر سود پر سود کا سلسلہ چلتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو علاقائی حکومتیں وعدے کے مطابق قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی تھیں ، ان سے بہ صورت رہن ان کے علاقے اپنے قبضے میں کرنا شروع کیے۔ اس طرح ملک کے بہت سے اضلاع ان کی تجارتی منڈیاں بھی بن گئے اور ان کے قبضے میں بھی آگئے۔ مغل حکومت اب بہت کمزور ہوگئی تھی، اس کی حکمرانی کا دائرہ صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گیا تھا اور وہ بھی برائے نام۔ حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔ بادشاہ بالکل بے اختیار تھا۔ جب حالات بہت زیادہ ابتر ہوگئے اور انگریزوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی برملا توہین ہونے لگی، حتیٰ کہ مغل دربار کے معروف ارکان کے ساتھ بھی اہانت آمیز رویہ اختیار کیا جانے لگا تو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے یہ فتویٰ جاری کیا کہ ہندوستان اب دار الحرب ہو گیا ہے۔ یہ اکبر شاہ ثانی کا دورِ حکومت تھا۔ اس کا پورا نام ابو النصرمعین الدین محمد اکبر شاہ ثانی تھا۔ یہ بادشاہ ۷؍ رمضان المبارک ۱۱۷۳ھ(۲۳؍ اپریل ۱۷۶۰ء)کو پیدا ہوا۔ چھیالیس سال سے کچھ زیادہ عمر پاکر ۷؍ رمضان المبارک ۱۲۲۱ھ(۱۹۔نومبر ۱۸۰۶ء)کو تختِ حکومت پر بیٹھا۔ اس کا دائرۂ حکمرانی صرف قلعہ معلّٰی تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ تمام اختیارات انگریزوں کی ایسٹ انڈیاکمپنی کے ہاتھ میں تھے۔ اس نے بتیس سال ’’حکومت‘‘ کی۔ ۲۸؍ جمادی الاخری ۱۲۵۳ھ(۱۸۳۸ء)کو فوت ہوا۔ مسلمانوں کے اس حکومتی عہدِ زوال میں خیر کا پہلو یہ تھاکہ ملک کے مختلف حصوں میں بہت سے جلیل القدر علما موجودتھے۔ بالخصوص دہلی کو اس وقت علم کے گہوارے کی حیثیت حاصل تھی اور یہ شہر حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی، شاہ عبدالقادر دہلوی رحمہم اللہ اور دیگر متعدد اصحاب ِ کمال کا مسکن تھا۔ سید احمد شہید رحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل شہید دہلوی رحمہ اللہ کی تحریکِ جہاد اسی عہد میں شروع ہوئی اور اسی عہد میں ان حضرات نے
Flag Counter