Maktaba Wahhabi

466 - 924
سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کیا اور پورے ملک میں انقلاب و تغیر کی ایک زبردست لہر پیدا کر دی۔ علمائے کرام کے ذہنوں میں ان کی کوششوں سے بالخصوص تبدیلی آئی۔ ۱۹۱۹ء کے آخر میں مولانا ثناء اللہ امر تسری مرحوم و مغفور کی تحریک وتجویز سے امرتسر میں جمعیت علمائے ہند کا قیام عمل میں آیا۔ یہ خالص علمائے عظام کی جماعت تھی، جس نے ملک کی آزادی کے لیے بے پناہ جدوجہد کی، بلکہ سب سے پہلے ملک کی مکمل آزادی کا مطالبہ بوریا نشینوں کی اسی جماعت نے کیا۔ اس سے قبل مجلسِ خلافت بھی ابتدا میں خالص علما کی جماعت تھی، جس سے بعد میں غیر مسلموں نے بھی تعاون کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا ابوالقاسم بنارسی، مولانا عبدالقادر قصوری، ان کے صاحب زادے مولانا محی الدین احمد قصوری، مولانا محمد علی قصوری، مولانا سید محمد داود غزنوی، مولانا اسماعیل غزنوی، مولانا عبدالغفار غزنوی، مولانا محمد علی لکھوی، مولانا محمد اکرم خان بنگالی، مولانا عبداللہ الکافی، مولانا عبداللہ الباقی، مولانامحمد ابراہیم سیالکوٹی، مولانا محمد ظفرعلی خان، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ وغیرہ بے شمار حضرات اس جماعت میں شامل تھے۔ مجلسِ احرار ۱۹۲۸ء میں قائم ہوئی۔ اس میں بھی علمائے کرام اچھی خاصی تعداد میں شامل تھے اور مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کئی سال اس کے سیکرٹری جنرل رہے۔ خود گوجرانوالہ کے علمائے کرام نے برصغیر کی تحریکِ آزادی میں حصہ لیا اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی۔ ان حضرات میں قاضی عبدالرحیم، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عبدالواحد، مولانا محمد چراغ اور دیگر علمائے کرام رحمہم اللہ شامل ہیں ۔ بہرحال عالی قدر علمائے کرام کی سعی مسلسل سے برصغیر آزاد ہوا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ان بلند مرتبت لوگوں کی مغفرت فرمائے اور پاکستان ترقی و تقدم کی منزلیں طے کرے اور یہاں کے لوگ دینی اور دنیوی اعتبار سے خوش حال ہوں اور ہمیشہ خوش حال رہیں ۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بے شمار قربانیوں کے بعد پاکستان عالمِ وجود میں آیا ہے۔ اگست ۱۹۴۷ء میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے ان مقامات کی سکونت ترک کرنا پڑی، جن میں وہ سیکڑوں سال سے آباد تھے، اربوں کی جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑے۔ لاکھوں مسلمان، جن میں بڑے بڑے علمائے دین اور مدرسین شامل تھے، غیر مسلموں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ لاتعداد خواتین کی عصمتیں لٹیں ، بہت سی شریف زادیاں یا تو مر گئیں یا دشمنانِ اسلام کے قبضے میں چلی گئیں ۔ مسجدیں اور مدرسے برباد ہوئے۔ غرض بہت سی قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا گیا ہے، لیکن نہایت افسوس ہے ہماری سنگین غلطیوں کے نتیجے میں اس کا آدھے سے زیادہ حصہ پاکستان سے الگ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا ہے کہ وہ اس باقی ماندہ حصے کو استحکام اور مضبوطی عطا فرمائے اور اس کے حکمرانوں کو توفیق دے کہ وہ ایسے اقدامات کریں ، جو اس ملک کے باشندوں کے لیے فائدہ مند ہوں ۔‘‘
Flag Counter