Maktaba Wahhabi

479 - 924
لکھوی خاندان کے ایک عالم مولانا صلاح الدین حیدر لکھوی ہیں ۔ انھوں نے درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور وہاں کا نصابِ تعلیم مکمل ہوا تو انھیں دارالافتاء ریاض کی طرف سے بہ طور مبعوث افریقی ملک نائیجیریا بھیج دیا گیا۔ وہاں انھوں نے تدریسی خدمات بھی سر انجام دیں ، تقریری صورت میں بھی کام کیا اور عربی اور انگریزی میں مختلف موضوعات پر کتابیں بھی تصنیف کیں ۔ خانوادۂ لکھویہ کی ایک قابلِ ذِکر شخصیت پروفیسر ڈاکٹر محمد حسین لکھوی ہیں ، جو مولانا صلاح الدین حیدر لکھوی کے بھتیجے ہیں ۔ وہ طویل مدت سے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ(کراچی)میں بہ حیثیت استاذ کام کر رہے ہیں ۔ انھوں نے جس موضوع پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی، وہ موضوع ہے: ’’برصغیر پاک و ہند میں لکھوی خاندان کی علمی، دینی اور سیاسی خدمات۔‘‘ یہ ایک اہم موضوع ہے۔ ڈاکٹر صاحب ممدوح اس سلسلے میں اس فقیر سے بھی ملتے رہے۔ میں نے اپنی محدود معلومات کے مطابق نہایت مسرت کے ساتھ ان سے تعاون کرنے کی کوشش کی۔ اس کاتذکرہ انھوں نے اپنے مقالے میں کیا ہے، جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں ۔ طلبہ کی تعلیم کے علاوہ لکھوی حضرات کی نگرانی میں طالبات کی تعلیم کا سلسلہ بھی کئی سال سے جاری ہے۔ اوکاڑہ میں دو مدارس جامعہ محمدیہ للبنات اور مدرسہ تعلیم الصالحات، ایک رینالہ خورد میں جامعہ عائشہ اور ایک مدرسہ دیپال پور میں پروفیسر سرفراز احمد لکھوی کی زیرِ نظامت مرکز تعلیم القرآن و السنہ کے نام سے خدمات سر انجام دے رہا ہے، جس کی طلبہ اور طالبات کے لیے دو الگ الگ شاخیں ہیں ۔ ایک مدرسہ للبنات مولانا منیر الدین لکھوی کے اہتمام میں چک نمبر ۱۸ نزد رینالہ خورد میں جاری ہے۔ لائقِ احترام قارئین غور فرمائیں ، اس خاندان کی علمی خدمات کا دائرہ کس قدر وسعت پذیر ہے۔ پاکستان میں بھی ان کے علمائے کرام درس و تدریس میں مصروف ہیں اور پاکستان کے باہر بھی بعض ممالک میں ان کی جہودِ علمیہ اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں ۔ ان کی وضع قطع اور دینی حالت بھی اللہ کے فضل سے اپنے بزرگوں کی طرح ہے۔ ان کے عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد ملک اور بیرون ملک موجود ہے۔ یہ لوگ ان لکھوی حضرات سے رابطہ بھی رکھتے ہیں اور ان سے مختلف پہلوؤں سے دینی و دنیوی راہنمائی کے علاوہ اپنے نکاح اور جنازے پڑھوانے میں سعادت سمجھتے ہیں ۔ تاریخ اور عمرانیات کے ماہر علامہ ابن خلدون نے ایک نظریہ ایجاد کیا ہے، جسے وہ نظریۂ جیل قرار دیتے ہیں ۔ ’’جیل‘‘ کے معنی ہیں : مدت اور زمانہ یا گروہ(جنریشن)، یعنی کوئی ایسا خاندان یا قبیلہ جس میں حکمرانی یا کسی تعلیمی سلسلے وغیرہ کا آغاز کیا گیا ہو، اس کی مدت کو ابن خلدون نے چار اجیال پر تقسیم کیا ہے۔ جیل دس سال کی بھی ہوسکتی ہے اور تیس یا اس سے زیادہ سال کی بھی، لیکن ابن خلدون نے اسے چالیس سال کی قرار دیا ہے، مطلب یہ ہے کہ جس قبیلے یا گروہ سے اس کا آغاز ہوا ہے، وہ تو اپنے شروع کردہ اس اہم کام کی پوری حفاظت کریں گے اور اس کے ارتقا کے
Flag Counter