Maktaba Wahhabi

481 - 924
(2)۔ حافظ محمد اسماعیل روپڑی۔ ان کا انتقال ۱۲؍ جنوری ۱۹۶۲ء کو لاہور میں ہوا۔ (3)۔ حافظ عبدالقادر روپڑی۔ ان کا سانحہ ارتحال لاہور میں ۶؍ دسمبر ۱۹۹۹ء کو پیش آیا۔ (4)۔ حافظ احمد۔ یہ ۱۵؍ جولائی ۱۹۸۹ء کو امریکا میں سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے اور ۲۰؍ جولائی ۱۹۸۹ء کو گارڈن ٹاؤن لاہور کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔ ان چاروں بھائیوں نے اپنے اپنے دائرے میں خدمات سر انجام دیں ۔ ان سطور میں ہم مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کی ایک خاص خدمتِ دین کا تذکرہ کرنا چاہتے ہیں ، جو اُنھوں نے مناظرے کی صورت میں سرانجام دی۔ وہ اپنے دور کے بہت بڑے مبلغِ اسلام اور مشہور مناظر تھے۔ انھوں نے احناف کے دونوں گروہوں دیوبندیوں اور بریلویوں کے اصحابِ علم سے بھی مناظر ے کیے اور مرزائیوں اور شیعوں سے بھی ان کے مناظروں کا سلسلہ جاری رہا۔ مناظرے کے لیے علم کے ساتھ ساتھ حاضر جواب ہونا اوّلین شرط ہے اور حافظ عبدالقادر رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے خوب نوازا تھا۔ مناظرہ ان کا بے حد پسندیدہ عمل تھا، اس میں وہ خوب چہکتے تھے اور حریف سے پنجہ آزمائی کرکے انھیں انتہائی مسرت حاصل ہوتی تھی۔ ان کے مناظروں کی تفصیل نہایت دلچسپ ہے، جو ’’میزانِ مناظرہ‘‘ کے نام سے کتابی شکل میں دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔ جلد اوّل ۴۱۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس جلد کے آغاز میں حضرت حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کے حالات و سوانح بھی بیان کیے گئے ہیں اور مختلف موضوعات سے متعلق ان کے متعدد مناظروں کا تذکرہ بھی کیاگیا ہے۔ زیادہ تر مناظروں کا تعلق بریلوی حضرات سے ہے۔ ’’میزانِ مناظرہ‘‘ کی دوسری جلد ۲۷۲ صفحات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس میں بھی پہلی جلد کی طرح بہت سے مناظروں کا ذکر ہے، جو حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ نے مختلف موضوعات پر کیے۔ مناظرہ ایک بہت بڑا فن ہے، جس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں (جس میں بنگلہ دیش بھی شامل ہے)اس کا آغاز درحقیقت اس وقت ہوا، جب اس خطے میں انگریزی حکومت قائم ہوئی اور انگریز اپنے ساتھ انگلستان سے انگریز پادریوں اور عیسائی مذہب کے ماہرین کو بھی لائے۔ ان کا مقصد یہاں کے لوگوں میں عیسائیت کی تبلیغ کر کے انھیں عیسائی مذہب کی طرف راغب کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ان کا اصل ہدف مسلمان تھے۔ اس لیے کہ انھوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی۔ ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ جیسے جیسے اس ملک میں عیسائیت عام ہوگی، اسی نسبت سے ان کی عیسائی حکومت کے قدم مضبوط ہوں گے۔ چنانچہ انھوں نے عیسائیت کے فروغ کے لیے عیسائی عالموں اور پادریوں کی خدمات حاصل کیں ، جنھوں نے(بالخصوص)مسلمانوں کے ساتھ مباحثوں اور مناظروں کی مہم شرو ع کی۔ انگریز پادریوں کے علاوہ انگریزی حکومت نے ملازمتوں اور روپے پیسے کا لالچ دے کر یہاں کے پڑھے لکھے ہندوؤں ، سِکھوں اور مسلمانوں کو بھی عیسائیت کی تعلیم سے روشناس کرایا اور انھیں پادری کی سندیں دے کر میدانِ تبلیغ میں اتارا۔ چناں چہ ان دیسی پادریوں نے اَن پڑھ(کم تعلیم یافتہ)لوگوں میں عیسائیت کی تبلیغ کی اور اس میں انھیں
Flag Counter