Maktaba Wahhabi

542 - 924
ذکر کیا ہے جو آیندہ سطور میں درج کیا جا رہا ہے۔ اس خط میں انھوں نے ڈیوڈ گل مارٹن کا نام بھی لیا ہے۔ میں نے اپنی ایک تصنیف ’’میاں عبدالعزیز مالواڈہ‘‘ کے صفحہ ۵۶۶ سے صفحہ ۵۷۳ تک ’’ایک مغربی سکالر کا نقطئہ نگاہ‘‘ کے عنوان سے گل مارٹن کی کتاب ’’ایمپائر اینڈ اسلام‘‘ سے چند باتیں درج کی ہیں ، جو اس کے صفحہ ۸۹ سے ۹۵ تک چلی گئی ہیں ۔ عزیزم علی عثمان قاسمی نے اس اندراج سے اختلاف کیا ہے۔ اس خط میں ایک جرمن سکالر مارٹن ریز نگر کا نام بھی آتا ہے۔ کئی سال کی بات ہے مارٹن ریز نگر کا ایک خط میرے نام آیا تھا، جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ وہ مولانا ثناء اللہ امرتسری اور متحدہ پنجاب میں مسلک اہلِ حدیث سے متعلق پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ان کی مدد کی جائے۔ لیکن خط میں انھوں نے اپنا مکمل پتا نہیں لکھا تھا، اپنے نام کے ساتھ صرف ہائیڈ لبر گ جرمنی لکھا تھا، اس لیے میں انھیں خط کا جواب نہیں دے سکا تھا۔ تاہم مجھے بار بار خیال آرہا تھا کہ اس شخص کی کس طرح مددکی جائے اور اس موضوع کے متعلق کس صورت میں اسے معلومات بہم پہنچائی جائیں ۔ اس طرح ایک عرصہ گزر گیا۔ ایک روز میں اپنے معمول کے مطابق اردو بازار مکتبہ قدوسیہ میں گیا تو وہاں ایک نوجوان بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر عزیزی عمر فاروق قدوسی نے ان سے کہا: ’’لوجی آگئے بھٹی صاحب‘‘ وہ نوجوان کھڑے ہو کر نہایت احترام سے مصافحے کے لیے میری طرف بڑھے۔ وہ انگریزی لہجے میں اردو بولتے تھے لیکن صحیح بولتے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہی مارٹن ریز نگر ہیں ، جنھوں نے مجھے جرمنی سے خط لکھا تھا۔ گفتگو کرتے ہوئے میں نے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ یہودی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ میں نے کہا: اگر آپ یہودی ہیں اور یہاں سے سات سمندر پار جرمنی کے رہنے والے ہیں تو آپ کو متحدہ پنجاب کے اہلِ حدیث اور مولانا ثناء اللہ امر تسری پر کام کرنے کی کیا مصیبت پڑی؟ وہ مسکرائے اور کہا: یورپ کی یونیورسٹیوں کی طرف سے سکالروں کو اس قسم کے موضوع دیے جاتے ہیں اور وہ ان موضوعات سے متعلق تحقیقی کام کرتے ہیں ۔ لاہور کے علاقہ سنت نگر میں سید ہوسٹل میں ان کا قیام تھا۔ وہ مجھ سے کئی دفعہ ملے۔ بعض باتیں پوچھنے کے لیے میرے گھر بھی آتے رہے۔ اپنے موضوع کے بارے میں وہ پاکستان کے بہت سے لوگوں سے ملے۔ کراچی بھی گئے۔ میرے کہنے سے متعدد اہلِ علم سے ملاقات کی۔ عجیب بات یہ ہے کہ میری کتاب ’’فقہائے ہند‘‘ کی(جودس جلدوں پر مشتمل ہے)دو تین جلدیں میرے پاس نہیں ہیں ، لیکن انھوں نے کوشش کرکے تمام جلدیں حاصل کرلیں اور مجھے دکھائیں ۔ اس پر میرے دستخط بھی لیے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ جرمنی میں میرا نام اورپتا آپ کو کس نے بتایا؟ اپنے خط پر آپ نے میرے گھر کا صحیح پتا لکھا تھا، یہ پتا آپ کو کہاں سے ملا؟ انھوں نے جواب دیا کہ مختلف لوگوں سے مجھے آپ کے متعلق معلوم ہوا تھا، جن میں پاکستانی اور ہندوستانی اہلِ علم شامل تھے۔
Flag Counter