Maktaba Wahhabi

56 - 924
برصغیر ہند و پاک کے بلند مرتبت علما و صلحا کی سیرت و سوانح پر نصف صدی کے قریب ضخیم معلوماتی تصانیف کہ جن کو ایک مرتبہ پڑھنا شروع کریں تو آخر تک پڑھے بغیر طبیعت سیراب نہیں ہوتی، ان کی تحریروں کی روانی اور شگفتگی اور مختلف ادوار کے حالات و ظروف میں علمائے اسلاف کی علمی و تدریسی تگ و تاز اور ان کٹھن راہوں میں مشکلات و مصائب اور طویل ترین اسفار کا مستند تذکار کرنے میں کمال قلم چلایا ہے۔ یہی وجہ ہے ’’جمعیت احیاء التراث الاسلامی، کویت‘‘ نے ایک بڑے علمی و دینی اور رفاہی اجتماع میں بھٹی صاحب کو ’’مورخِ اہلِ حدیث‘‘ کے خطاب سے نوازتے ہوئے ایک یادگار شیلڈ عنایت کی۔ اس کام میں ہمارے فاضل دوست مولانا عارف جاوید محمدی کی کاوش بجا طور پر قابلِ ستایش ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے نوخیز علما اور اہلِ حدیث کی نئی نسل کے لیے اپنے اسلاف کی محنتوں اور دینی جدوجہد کی تنظیمی کارگزاریوں سے آگاہی کا بہت سا مواد اپنی گراں قدر تصانیف میں جمع فرما دیا ہے۔ ہمارے اکابر اور اسلاف نے دعوت و ارشاد کے سلسلے کی جو مذہبی و سیاسی جماعتیں قائم کیں اور برصغیر کی بڑی بڑی تحریکوں میں سرفہرست اور سرفروشانہ کردار ادا کیا، ان کی تفصیلات و کوائف کو دلچسپ اور خوبصورت پیرائے میں حوالۂ قرطاس کیا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی ان فضیلت مآب شخصیات کے کردار و سوانح کو بھی تحریر میں لایا گیا ہے۔ گویا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے شاعر کی زبان میں اپنا مطمحِ نظر یوں بنا لیا تھا: ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے ہمارے ممدوح مرحوم بھٹی صاحب اگرچہ علمی خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے، لیکن ان کے آبا و اجداد میں صالحیت اور زہد و تقویٰ نمایاں تھا۔ بھٹی صاحب کو بچپن سے مطالعے کا شوق تھا، جو انھیں لڑکپن ہی میں ’’مرکز الاسلام لکھو کے‘‘ لے آیا۔ یہ مسلکِ اہلِ حدیث کا قدیمی اور قرآن و سنت کی تعلیمات کا گہوارہ تھا، جہاں انھیں مولانا محمد علی لکھوی، مولانا عطاء اللہ حنیف، مولانا ثناء اللہ ہوشیارپوری رحمہم اللہ جیسے اساتذہ سے شرفِ تلمذ حاصل ہوا، جن کی تعلیم و تربیت اور مولانا محی الدین لکھوی اور مولانا معین الدین لکھوی رحمہما اللہ جیسے ہم سبق کی رفاقت نے انھیں کندن بنا دیا۔ یہاں تحصیلِ علم کے بعد تدریسی خدمات بھی سرانجام دیں ۔ بعض سیاسی تحریکوں میں حصہ لینے کی بنا پر قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ، یہاں تک کہ تقسیمِ ملک کے موقع پر دیگر مہاجرین کی طرح بے سرو سامانی کی کیفیات میں لاہور آگئے۔ لاہور میں بقول بھٹی صاحب رحمہ اللہ نئی منزل اور نئی راہیں آتی گئیں ۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی تشکیل پر حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی اور مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہما اللہ کی صحبت و برکات اور راہنمائی میں مرکزی دفتر کے ناظمِ دفتر بھی رہے، اور پھر نیم سرکاری ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ یہاں مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ جیسی بلند مرتبت اور علمی دنیا کی اونچی شخصیات کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے ان کی صلاحیتیں کہاں سے کہاں تک بڑھتی رہیں ، اس کا اندازہ ان کی تصانیف اور نگارشات سے ہوتا ہے۔ اس زمانے میں روزنامہ ’’امروز‘‘ بڑا مقبول اخبار تھا، جس میں ہر دوسرے تیسرے روز بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے علمی و ادبی اور سیاسی کالم ہم پڑھتے تھے۔
Flag Counter