Maktaba Wahhabi

57 - 924
۶۵ء کی جنگ کے دنوں میں ریڈیو پر حضرت سید ابوبکر غزنوی اور مکرم مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہما اللہ کی تقریروں کو عوام میں بڑی پذیرائی حاصل رہی۔ ’’الاعتصام‘‘ کے اس دور کے پُرجوش اور جہادی سپرٹ اُبھارنے والے اداریے، اسی طرح ملکی تحریکوں پر تبصروں اور مسلکی تبلیغ پر مشتمل ادارتی تحریریں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ بلاشبہہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ اردو زبان و ادب کے ایک صاحبِ طرز ادیب اور خاص اسلوبِ نگارش کی حامل شخصیت تھے، ان کے قلم سے بہت سی تاریخی و تحقیقی کتابیں اور بے شمار مقالات زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں ۔ انھوں نے ایک دفعہ کسی بات سے ناراض ہو کر ’’الاعتصام‘‘ کو چھوڑ کر اپنا ایک جریدہ سہ روزہ ’’منہاج‘‘ نکالا۔ ان دِنوں وہ اور ہمارے دوست قاضی محمد اسلم سیف رحمہ اللہ میرے غریب خانہ پر تشریف لائے اور ’’منہاج‘‘ کی اشاعت بڑھانے اور خریدار بنانے کے لیے توجہ دلائی۔ میں نے دو تین روز میں اُن کے قیام کے دوران شہر میں بیس تیس خریدار بنائے۔ لیکن ’’منہاج‘‘ چند ماہ ہی چلا اور وہ دوبارہ ’’الاعتصام‘‘ میں آگئے اور بعدہٗ کچھ مدت ’’اہلِ حدیث‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ بھی رہے۔ مجھے ان کے ساتھ ’’اہلِ حدیث‘‘ کے ادارتی عملے میں شامل ہو کر کام کرنے کی سعادت حاصل ہے۔ اس دوران میں کئی جماعتی نشیب و فراز آئے، مگر ان کی محبتوں اور خوش گوار ملاقاتوں میں کوئی فرق نہ آیا۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ یارانہ نبھانے اور دوستوں کی خوشیوں غمیوں میں شامل ہونے کے لیے تصنیفی مصروفیات میں سے وقت نکال لیتے۔ فیصل آباد میں ان کے ہم عمر اور بے تکلف دوستوں کاقابلِ ذکر حلقہ تھا، جن میں مولانا محمد اسحاق چیمہ، مولانا محمد صدیق، مولانا عبیداﷲ احرار اور قاضی محمد اسلم سیف رحمہم اللہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ۔ وہ جب بھی لاہور سے اپنے گاؤں منصورپور ڈھیسیاں (جڑانوالہ)آتے تو فیصل آباد ان دوستوں کو ملنے کے لیے بھی آتے۔ مولانا عبیداللہ احرار رحمہ اللہ کی دکان یا مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ کی دکان پر محفلیں برپا ہوتیں ۔ لطائف و ظرائف ہوتے، جماعتی سیاسیات اور ملکی احوال زیرِ بحث رہتے اور ادارہ علومِ اثریہ میں علمی اجلاس ہوتے، جن میں مولانا محمد حنیف ندوی اور بھٹی صاحب رحمہما اللہ لازمی شرکت کرتے۔ اب نہ وہ علمی شخصیات ہیں اور نہ وہ ماحول ہے، بس نفسی نفسی کا دور ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے دنیا سے جانے کے بعد اب تو بالکل ہی اداسی کا سماں ہے۔ بقولِ شاعر: وہ صورتیں الٰہی کس دیس میں بستی ہیں اب دیکھنے کو جن کے آنکھیں ترستی ہیں بہرحال ہمارے بزرگ دوست مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی نگارشات اور کتبِ کثیرہ ایک زندہ یادگار بن کر آنے والی نسلوں کے لیے نمونۂ عمل رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں صالحین و اسلاف کے ساتھ اکٹھا فرمائے۔ آمین۔
Flag Counter