Maktaba Wahhabi

634 - 924
عصر کی نماز کے بعد ابو جی نے دفتر سے فون کیا تو راقم نے پوچھا کہ ’’آپ نے گھر کب تک آنا ہے؟‘‘ کہنے لگے کہ ’’تھوڑی دیر تک آرہا ہوں ۔‘ چار بجے کے قریب وہ اکیلے گھر پہنچے تو میں نے عرض کیا: ’’کیا آپ دفتر سے اکیلے آئے ہیں ۔‘‘ کہنے لگے: ’’نہیں ‘‘۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی صاحب کے ساتھ آیا ہوں ، وہ مجھے سڑک تک چھوڑ کر گئے ہیں ۔ میں نے کہا: ’’آپ ڈاکٹر صاحب کو بھی ساتھ ہی گھر لے آتے۔‘‘ کہنے لگے: میں نے ان سے کہا تھا، لیکن ڈاکٹر حماد صاحب شدید نزلے(Flu)میں گِھرے ہوئے تھے، اس لیے وہ گھر نہیں آئے۔ تھوڑی دیر بعد جب میری والدہ نے چائے کا پوچھا تو کہنے لگے: تھوڑی دیر بعد پیؤں گا، آج میری کمر میں درد ہے۔ والدہ نے کمر دباتے ہوئے کہا کہ جب آپ دوائی کھائیں گے تو ان شاء اللہ درد ٹھیک ہو جائے گا۔ ۱۱؍ ستمبر ۲۰۱۱ء کو مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے دفتر ۱۰۶ راوی روڈ پر ابو جی اور راقم ایک میٹنگ کے سلسلے میں رکشے پر جا رہے تھے، ہم دفتر کے قریب ہی تھے کہ رکشہ الٹ گیا۔ جس سے ان کا دایاں بازو فریکچر ہوگیا اور کمر میں بھی کافی چوٹیں آئیں ۔ بازو کے فریکچر ہونے کی وجہ سے کمر کی تکلیف کا احساس اس وقت تو نہ ہوا، لیکن اس کے بعد ہر سال شدید سردی کے دنوں میں اُن کی کمر میں درد ہوتا تھا۔ جوں ہی سردی کی شدت میں کمی ہوتی تو وہ بالکل ٹھیک ہو جاتے اور سال کے باقی دنوں میں ایسا محسوس ہوتا، جیسے انھیں کبھی کمر میں تکلیف ہوئی ہی نہیں ۔ بہر حال اسی وقت میرے والد گرامی ابو جی کے لیے وہ ادویات میڈیکل سٹور سے خرید لائے، جو ڈاکٹر نے کمر درد کے لیے تجویز کر رکھی تھیں ۔ ان ادویات کے استعمال سے وقتی طور پر کمر میں درد کی شدت کافی کم ہوگئی۔ ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کی شام کو مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند جناب یحییٰ غزنوی صاحب گھر تشریف لائے تو ابو جی انھیں پرتپا ک انداز سے ملے۔ دورانِ گفتگو جن کتابوں میں غزنوی علما کا ذکر کیا گیا ہے، وہ دکھائیں اور کچھ کتب انھیں تحفتاً پیش کیں ۔ ۱۷، ۱۸ اور ۱۹؍ دسمبر کو ابو جی کی صحت دن کے اوقات میں بالکل ٹھیک رہتی اور وہ اپنے معمول کے کام بھی سرانجام دیتے، لیکن بعض اوقات رات کے آخری پہر کمر میں درد کی وجہ سے سانس بھی اُکھڑنے لگتا۔ ۲۰؍ دسمبر ۲۰۱۵ء بروز اتوار صبح نو بجے انھیں کمر میں شدید درد ہوا تو راقم نے ان کے ذاتی معالج، معروف ماہرِ قلب اور مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ کے بڑے بیٹے ڈاکٹر زعیم الدین لکھوی صاحب کو فون کیا اور انھیں ابو جی کی کمر میں درد کے بارے میں بتایا اور ساتھ ہی عرض کی کہ درد کے ساتھ بعض اوقات سانس بھی اُکھڑنے لگتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’’میں اس وقت بہاول نگر جا رہا ہوں ، آپ میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی صاحب سے رابطہ کریں ۔‘‘
Flag Counter