Maktaba Wahhabi

647 - 924
سے بھی دور رکھا۔ جھوٹ کی جگہ غلط بیانی کا لفظ ڈکشنری میں شامل کیا۔ اُٹھنے، بیٹھنے، کھانے، پینے اور بات کرنے کے آداب سکھائے، انھوں نے ہمارے ہر فعل پر نظر رکھی اور ہمیں فیل ہونے سے بچایا، اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ سب پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ وہ اچھے کام کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے اور برے کام کرنے والوں کو سزا دیتا ہے۔ ہم نے اسی ماحول میں تربیت پائی اور آج میں جو بھی ہوں ، جہاں بھی ہوں ، اس میں بڑا دخل گھر کے ماحول کا ہے اور گھر وہ، جہاں ابو جی ہوں ۔ جب ہم پرچہ دینے کے بعد گھر آتے توپورا paperسنتے اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہpaperدینے کے بعد ابو جی کو سنانے کے لیے سکول میں بیٹھ کر تیاری کرتے۔ درمیانی قامت، گھنگریالے بال، خندہ پیشانی، سفید ریش سے سجا نورانی چہرہ، ذہانت اور حاضر جوابی سے چمکتی آنکھیں ، ہونٹوں پہ مسکراہٹ، بلند حوصلہ، پر امید اورکبھی مایوس نہ ہونے والی ایک بھر پور علمی شخصیت، جو اپنی ذات میں ایک انجمن، شخصیات پر کام کرنے والا ایک ادارہ، اپنے منفرد انداز کی وجہ سے نئے انداز کی بنیاد رکھنے والے میرے ابو جی رحمہ اللہ ۔ ’’کتب بینی ہے سیر اپنی، کتا بیں ہیں چمن اپنا‘‘ کے مصداق بیٹھک میں یا اپنے کمرے میں سامنے میز پر رکھے کاغذوں اور کتابوں کے ایک چھوٹے سے انبار پر جھکے کچھ نہ کچھ لکھنے یا پڑھنے میں ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروف… اور اتنے مصروف کہ دنیا اور مافیہا سے بے نیاز … نزدیک ہی رکھے ٹیلی فون کی گھنٹی سے غافل… آپ پاس کھڑے خاموشی سے دیکھتے رہیں ، آپ کے وجود سے بے خبر … جب تک آپ انھیں اپنی آمد سے با خبر نہیں کریں گے، اپنے کام میں منہمک…۔ اللہ کی قدرت دیکھئے، پیرانہ سالی کے باعث اکثر اوقات کھانا کھاتے، پانی یا چائے پیتے، ہاتھوں میں رعشہ محسوس ہوتا ہے، لیکن جب وہ خط کتابت میں اپنے خیالات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں یا کسی کو خط لکھ رہے ہیں ، اس وقت وہی ہا تھ قوی ہا تھوں کی مانند مستقل مزاجی سے چلتے جا رہے ہیں ۔ اردو، پنجا بی، عربی اور فارسی کے متعدد اشعار، ضرب الامثال اور محاورے ان کے حافظے کا حصہ تھے۔ اس کے علاوہ دوہے اور بولیاں ازبر تھیں ، جن کا وہ بر محل استعمال بھی کرتے، البتہ حساب کتاب خود نہ کرتے اور انگلش کا خواہ کوئی ایک لفظ ہوتا، ہمیں آواز دے دیتے۔ نصف شب کو اُٹھ بیٹھنا، نوافل ادا کرنا، قرآن پا ک کی تلا وت کرنا اور پھر پورے خشوع و خضوع سے رو رو کر عزیز و اقارب کے لیے دعا کرنا، نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے مسجد جانا؛ ان کی طبیعت کا ایسا رچا بسا معمول رہا جس نے آ خری دنوں تک ان کا ساتھ دیا۔ خا ندان اور محلے کے سبھی لوگ ان کا احترام کرتے اور وہ بھی سب کا خیال رکھتے۔ خوشی اور غم میں برابر شریک ہوتے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ میری دانست میں انھوں نے کبھی کسی سے قرض نہیں لیا۔ چند احبا ب نے انھیں حج کروانے کی پیش کش کی تو انھوں نے کہا کہ میں حج بھی اپنے ہی پیسوں سے کرنا چاہتا ہوں اور الحمد للہ ایسا ہی
Flag Counter