Maktaba Wahhabi

648 - 924
ہوا، اور وہ فروری ۲۰۰۰ء میں فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ گئے۔ چوں کہ ایک ادیب کا مشغلہ اور پیشہ لکھنا، لکھنا اور لکھنا ٹھہرتا ہے، کچھ ایسا ہی حال ابو جی رحمہ اللہ کا بھی رہا۔ گھر میں کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ، ذاتی لا ئبریری کی حیثیت میں جمع کیا، جس میں تقریباً ہر زبان میں قرآنِ مجید کے متعدد نسخے موجود ہیں ۔ ان کے علاوہ اہم لغات، انسا ئیکلو پیڈیاز، اخبارات و رسا ئل کی سالانہ جلدیں بڑی تعداد میں شامل ہیں ۔ کبھی کبھار ہماری امی جی(چچی)یعنی ابو جی رحمہ اللہ کی بیوی جو ایک سا دہ مزاج خاتون تھیں ، ان کے ہمہ وقت لکھنے پڑھنے کے عمل کو اپنی سو تن کا درجہ بھی قرار دے دیتیں اور کہتیں کہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گھر کو وقت دیتے ہیں ، لیکن آپ نے اپنے آپ کو پہلے سے بھی زیادہ مصروف کر لیا ہے۔ امی جی کی یہ بات بالکل بجا تھی کہ ابو جی نے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد زیادہ کام کیا اور ادبی، علمی اور مذہبی دنیا میں شہرتِ دوام حاصل کی۔ گھر میں جب بھی ابو جی رحمہ اللہ کتابیں لاتے تو امی جی کہتیں : ’’جیڑیاں پہلے اینیاں کتاباں پئیاں نے، اوہ کتاباں پڑھ لئییاں سی کہ ہور لے آئے او؟(جو کتا بیں گھر میں موجود ہیں ، کیا انھیں پڑھ لیا ہے کہ اور خرید لائے ہیں ۔) ایک اور دل چسپ واقعہ ملاحظہ کیجیے! ہمارے ہاں گا ؤں سے مہمان آئے، مہمان میاں بیوی کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔ ابو جی رحمہ اللہ نے انھیں اپنے مخصوص انداز میں بہت اچھے طریقے سے خوش آ مدید کہا، کچھ دیر اُن کے پاس بیٹھے رہے، اِدھر اُدھر کی باتیں چلیں اور پھر کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آ گئے اور اپنے تحریری کام میں مصروف ہوگئے۔ مہمانوں کے بچے انھیں کام کرتے دیکھتے رہے۔ وہ ان کے کمرے میں آتے اور میز پر پڑے قلم، کاغذات، عینک اور رسا ئل کو پکڑتے اور ان کی والدہ انھیں اپنے پاس دوسرے کمرے میں لے جاتیں ۔ غالباً بچوں نے ایسا ما حول پہلے نہ دیکھا تھا۔ دو ایک مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ بڑا بچہ کہنے لگا: بڑے ابو کیا کام کر رہے ہیں تو اس کی والدہ نے بچے کی ذہنی سطح کے مطا بق اسے کہہ دیا کہ وہ اپنے سکول کا کام کر رہے ہیں ۔ انھیں اپنا کام ختم کرنے دو، پھر آ جانا۔ بچے مطمئن ہو کرچلے گئے، کافی دیر بعد بچے پھر آئے اور دیکھا کہ ابو جی رحمہ اللہ اپنے کام میں مصروف ہیں ، اب ایک بچے نے کہا: ابھی بڑے ابو کا سکول کا کام ختم نہیں ہوا، کیا انھیں ان کے ٹیچر نے سزا دی ہوئی ہے؟ جب میں نے یہ بات ابو جی رحمہ اللہ کو بتائی تو وہ کھلکھلا کے ہنس دیے اور پھر بچوں سے بھی با تیں کیں ۔ خبروں سے آگہی ان کا ایک بہت اہم مشغلہ رہا، جس میں اخبار پڑھنا اور خبریں سننا دونوں شامل ہیں ۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ ۲۱؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو بھی ہسپتال میں اخبار منگوایا اور پڑھا۔ اگر ان کے لباس کا ذکر کیا جائے تو شا ید آپ کو حیرت ہو کہ نوجوانی، جوانی یہاں تک کہ بڑھاپے میں بھی، صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے۔ ریٹائرمنٹ لینے کے بعد چوں کہ زیادہ وقت گھر میں گزارتے، اس لیے کپڑے دھوبی سے دھلوانے اور استری کروانے کا کام چھوڑ دیا۔ امی جی بتاتی تھیں کہ تمھارے ابو جی رحمہ اللہ کے دفتر کے لیے تیار
Flag Counter