Maktaba Wahhabi

67 - 924
ہے۔ یہ لائبریری جناب محمد سرور طارق نے اپنے دادا جان میاں محمد اسماعیل رحمہ اللہ کی طرف سے صدقہ جاریہ کے طور پر قائم کی ہے۔ میاں محمد اسماعیل رحمہ اللہ بہت ہی پاکباز اور نیک سیرت انسان تھے، اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اس لائبریری کے افتتاح کے لیے طارق صاحب نے جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو افتتاح کی دعوت دی اور بلاشبہہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی شخصیت ہی اس کام کے لیے موزوں تھی۔ مجھے یاد ہے انھوں نے اپنے خطاب میں برصغیر پاک و ہند کی بہت سی لائبریریوں کا بہت ہی خوب صورت انداز میں تعارف کرایا، اس فقیر نے بھی اس مجلس میں لائبریریوں کے سلسلے میں مسلمانوں کی درخشندہ روایات کا ذکر کیا تھا۔ یہ ایک یادگار نشست تھی، جس میں بہت سے احبابِ کرام نے شرکت فرمائی تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد میں قیام کے دوران میں راقم الحروف نے اپنے دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ مل کر مصری اسکالر عبدا لحلیم ابو شقہ کی کتاب ’’تحریرالمرأۃ في عصر الرسالۃ‘‘ کا ’’آزادیِ نسواں ۔۔ عہدِ رسالت میں ‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا۔ یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے، جو کونسل کے زیرِ اہتمام طبع ہوئی۔ اسی طرح اِن دنوں کونسل کی طرف سے ایک سہ ماہی مجلہ ’’اجتہاد‘‘ کا بھی بڑے تزک و اہتمام سے اجرا کیا گیا تھا۔ اس کتاب اور مجلے کی تقریب رونمائی کا پروگرام بنا تو میں نے اس میں شرکت کے لیے دیگر احبابِ کرام کے ساتھ جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو بھی دعوت دی۔ آپ نے دعوت کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور کتاب اور مجلے کی تقریب رونمائی میں اپنا مقالہ پڑھا۔ یہ تقریب اسلامی نظریاتی کونسل میں ۲؍ اگست ۲۰۰۷ء کو منعقد ہوئی تھی۔ آج سے تین چار سال پہلے ان کے گھر حاضری کا ایک بار پھر موقع ملا۔ دارالسّلام لاہور سے وابستہ فاضل دوست مولانا محمد عبدالجبار بھی میرے ساتھ تھے۔ ہم صبح سویرے ہی ان کے پاس چلے گئے تھے، ناشتہ انہی کے ہاں کیا اور مجلس بھی دیر تک جمی رہی، وہی تر و تازہ اور نورانی چہرہ، وہی پُر بہار اور زعفران زار مجلس، وہی معلومات کا دریا موجیں مارتا ہوا، زبان کی سادگی، کلام کی تاثیر، جذبات کی گہرائی اور ساتھ ساتھ لطائف و ظرائف کا حسین امتزاج، مجلس سے آنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ مجلس جب زیادہ طوالت اختیار کر گئی تو ان کی علمی مصروفیات کا احساس کرتے ہوئے ان سے اجازت طلب کی۔ افسوس کہ یہ ان کے ساتھ آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ ملاقات تو ۲۲؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو ان کے گاؤں چک نمبر ۵۳ گ ب ڈھیسیاں میں اس وقت بھی ہوئی، جب نمازِ جنازہ سے فراغت کے بعد اُن کا آخری دیدار کیا، مگر اب وہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ جو گل افشانیِ گفتار میں اپنی مثال آپ تھے، چپ چاپ، بے حس و حرکت محوِ استراحت تھے۔ میں اللہ رب ذوالجلال سے دعا کر رہا تھا کہ وہ ان کی قبر کو شبنمِ رحمت سے خنک و پُر بہار رکھے اور اعلیٰ علیین میں بلند و بالا درجات سے سر فراز فرمائے۔
Flag Counter