Maktaba Wahhabi

70 - 924
ہے، لیکن میں نے ان سے نماز سیکھی ہے۔ جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے اور استاذ المحدثین حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی شاگردی سے فیض یاب ہوئے۔ امام العصر حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ اور ان کے ہونہار بھتیجوں حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل روپڑی اور سلطان المناظرین حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہما اللہ سے عقیدت کی حد تک پیار و محبت کا رشتہ تھا۔ حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے باقاعدہ شاگردوں میں سے تو نہیں تھے، لیکن بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا تصنیفی کام بہت ہے، اس لیے ان تمام اشکالات میں حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ ہی سے راہنمائی حاصل کرتے رہے۔ انھوں نے ’’روپڑی علمائے حدیث‘‘ کے حرفے چند میں تحریر فرمایا: ’’حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ ان کا ہیولا اللہ تعالیٰ نے علم، عمل، تقویٰ اور غیرتِ دینی کے عناصرِ اربعہ سے تیار فرمایا تھا، ان کا قلم علم کی گہرائی میں اتر کر کاغذ پر حرکت کناں ہوتا ہے اور ان کی گفتگو سے تحقیق کے چشمے ابلتے دکھائی دیتے ہیں ۔‘‘ اس کتاب میں انھوں نے حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ کے والد گرامی میاں روشن دین، حضرت حافظ عبداللہ روپڑی رحمہما اللہ ، ان کی سلطان عبدالعزیز آلِ سعود سے ملاقات اور باہمی مراسلت، حافظ محمد حسین روپڑی، حافظ محمد احمد روپڑی، حافظ محمد اسماعیل روپڑی، حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہم اللہ ، حافظ عبدالوحید روپڑی، شیخ الحدیث حافظ عبدا لٖغفار روپڑی(مدیر جامعہ اہلِ حدیث لاہور)، حافظ عبدالوہاب روپڑی حفظہ اللہ اور دیگر روپڑی خاندان کی علمِ حدیث، تبلیغ، مناظرہ، فتاویٰ اور ’’تنظیمِ اہلِ حدیث‘‘ کے ذریعے دینی نشر و اشاعت کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان تو انسان چرند پرند بھی اپنی طبیعت کے موافق رفقا تلاش کر لیتے ہیں ۔ ؎ ہم جنس باہم جنس کند پرواز کبوتر با کبوتر باز با باز چنانچہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اکابر علمائے اہلِ حدیث کی رفاقت و صحبت میسر رہی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ قیامِ پاکستان سے قبل اور قیامِ پاکستان کے بعد اہلِ حدیث جماعت میں ایک فعال ہستی کے طور پر اس کا حصہ رہے۔ جماعتی اور تنظیمی نشیب و فراز کے چشم دید ہونے کی بنا پر انھیں بجا طور پر جماعتی انسا ئیکلو پیڈیا کہا جا سکتا ہے۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ان لوگوں میں سے تھے جو تاریخی شاہد ہی نہیں ، بلکہ تاریخ ساز بھی تھے۔ ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت طویل مدت تقریباً سولہ سال تک ان کے سپرد رہی، غالباً انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز ہی ’’الاعتصام‘‘ سے کیا تھا۔ ’’الاعتصام‘‘ کو اُن کے دورِ ادارت میں اگر سنہری دور کا نام دیا جائے تو یہ بے جا نہ ہوگا۔ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ لاہور میں بھی بہت طویل وقت گزارا۔ ماہنامہ ’’المعارف‘‘ لاہور کے ایڈیٹر بھی رہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر مصروف زندگی گزارنے والا انسان کس طرح تصنیف و تالیف کے لیے وقت نکال لیتا تھا اور پھر تاریخی حقائق پر ان کی کتب بلا مبالغہ ایک ’’حوالہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ میں ان کی تمام کتابوں پر
Flag Counter