Maktaba Wahhabi

71 - 924
تعارفی کلمات لکھوں تو یہ بہت طوالت کا باعث ہوگا، مختصراً ’’تاریخ فقہائے ہند‘‘ ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر کوئی طالبِ علم اس کو اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ بناتا تو یونیورسٹی اسے پی ایچ ڈی کی ڈگری دینے کے ساتھ اس گراں قدر علمی تحقیق پر انعام سے بھی نوازتی۔ یہ کتاب دس جلدوں پر مشتمل ہے اور بہت بڑا علمی خزانہ ہے۔ اسی طرح کتاب ’’الفہرست لابن الندیم‘‘ کا اردو ترجمہ اہلِ علم کے لیے بہت بڑا خزانہ ہے۔ برصغیر میں اہلِ حدیث کی آمد، برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش، کاروانِ سلف، بزمِ ارجمنداں ، برصغیر کے اہلِ حدیث خدامِ قرآن، محمد حسین ہیکل کی کتاب ’’ابوبکر صدیق‘‘ کا ترجمہ، قافلہ حدیث، ہفتِ اقلیم، برصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت، گزر گئی گزران، چہرۂ نبوت قرآن کے آئینے میں ، نقوشِ عظمتِ رفتہ، لشکرِ اسامہ کی روانگی(ترجمہ)، دبستانِ حدیث، گلستانِ حدیث، چمنستانِ حدیث، بوستانِ حدیث، یہ وہ کتب ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کتاب کے تعارف کے لیے ایک مضمون درکار ہے۔ اس کے علاوہ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے اکابر علمائے اہلِ حدیث، جن کی رفاقت بھی انھیں میسر رہی اور بعض وہ شخصیات جو تاریخ کا حصہ بن چکی تھیں ، ان کے سوانح حیات پر قلم اُٹھایا ہے۔ ان حضرات کی سوانح لکھنے سے بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی نظر میں کوئی ان کی خوشامد یا بے جا تعریف مقصود نہیں ، بلکہ بعد میں آنے والوں کے لیے اسلاف کی زندگی کے وہ زریں لمحات زندہ کیے، جو اُن کو اپنے لیے مشعلِ راہ بھی بنائیں اور یہ تاریخی فریضہ ادا کیا ہے کہ ان لوگوں کے شب و روز کس قدر تابندہ تھے، جو اُن کی محبوبیت اور مقبولیت کا سبب بنے۔ یہ تاریخی ورثہ ہمارے لیے لائحہ عمل ہے، جسے اقبال رحمہ اللہ نے کہا ہے: گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا سوانح کی ان کتب میں قصوری خاندان، سیرت قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ ، سوانح صوفی محمد عبداللہ رحمہ اللہ ، میاں عبدالعزیز مالواڈہ رحمہ اللہ ، مولانا غلام رسول قلعوی رحمہ اللہ ، ارمغانِ حنیف(تذکرہ مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ )، تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ ، سوانح مولانا احمد دین گکھڑوی رحمہ اللہ بہت اہم ہیں ۔ مولانا تادمِ آخر قلم و قرطاس سے پیوستہ رہے۔ میں نے پہلے بھی تحریر کیا ہے کہ سوانح سے ان کی مراد آنے والی نسلوں کو پیغام دینا ہے۔ مثلاً ’’قصوری خاندان‘‘ کے بزرگ جن میں مولانا عبدالقادر قصوری رحمہ اللہ جیسی قد آور شخصیت، جن کو اللہ تعالیٰ نے دولتِ دنیا سے نوازا، انگریزی تعلیم بھی حاصل کی، لیکن بنیادی کام دین کی تبلیغ اور پھر ان لوگوں کا تقویٰ، پرہیز گاری، سخاوت، جماعت سے وابستگی اور اگر آج اسی خاندان کو دیکھا جائے تو اسمبلیوں کی رکنیت، وزارت، سیاسی قد و قامت، دنیاوی مال و منال اور جاہ و جلال تو نظر آئے گا، لیکن اسلاف کی اصل میراث خدمتِ دین، تبلیغِ دین، وہ کہیں
Flag Counter