Maktaba Wahhabi

72 - 924
دور دور بھی نظر نہیں آتی۔ اگرچہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ ۱۹۴۸ء ہی سے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے آفس سیکرٹری اور ۱۹۵۱ء سے ’’الاعتصام‘‘ کے مدیر بن گئے تھے، لیکن روپڑی خاندان سے عقیدت و محبت کا رشتہ ہمیشہ رہا۔ حضرت حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ کے اصرار پر ۱۹۸۷ء میں ہفت روزہ ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کافی عرصہ یہ فریضہ خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے، جب بھی انھیں فرصت کے لمحات میسر آئے تو جامعہ اہلِ حدیث ضرور تشریف لاتے، یہاں ان کی خصوصی مجلس حافظ عبدالوہاب صاحب کے ساتھ ہوتی تھی۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ۱۹۴۳ء سے ۱۹۴۷ء تک ’’لکھوکے‘‘ کے مرکز الاسلام میں تدریسی فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ اگرچہ خطابت میں بھی ان کا مقام بلند تھا، لیکن نہ تو کہیں باقاعدہ خطابت کی اور نہ ہی جماعتی جلسوں میں زیادہ خطاب فرماتے۔ اگرچہ متعدد بار جلسوں میں خطاب بھی فرمایا، لیکن ان کا زیادہ وقت لکھنے میں صرف ہوتا تھا۔ میرے بھانجے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر، جو اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں صدر شعبہ علومِ اسلامیہ اور ڈائریکٹر سیرت چیئرمین تھے، سیرتِ نبوی اور احادیث کے حوالے سے اُن کی بہت سی کتب شائع ہو چکی ہیں ، تصنیف و تالیف کے اس رشتے کی بنا پر ان سے بہت شفقت فرماتے۔ ان کی بھی کوشش ہوتی کہ لاہور میں زیادہ تر وقت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ ہی گزارا جائے۔ ملتان میں مولانا محمد یاسین شادؔ صاحب، جنھوں نے گلشنِ فیض میں مسجد تعمیر کرائی ہے اور ’’عبدالرحمان اسلامک لائبریری‘‘ کے نام سے اچھا ذخیرہ کتب جمع کیا ہے، ان کے بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے دوستانہ مراسم تھے۔ شاد صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ نو تعمیر شدہ مسجد میں بھٹی صاحب رحمہ اللہ جمعہ پڑھائیں ، بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے وعدہ بھی کر لیا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی۔ جامعہ اہلِ حدیث لاہور کی سالانہ کانفرنس میں اول تا آخر تشریف فرما رہتے۔ اکثر خاموشی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے، لیکن کبھی کبھی حسِ مزاح سے بھی محفل کو کشتِ زعفران بنا دیتے۔ مولانا محمد رمضان یوسف سلفی صاحب کا تعلق جماعت غربائے اہلِ حدیث کراچی سے ہے اور جماعت غربا میں صدر یا امیر نہیں ہوتا، بلکہ سربراہِ جماعت امام کہلاتا ہے، سلفی صاحب نے جماعت غربائے اہلِ حدیث کے چار سربراہان مولانا عبدالوہاب صاحب، مولانا عبدالستار صاحب، مولانا عبدالجلیل صاحب اور مولانا عبدالغفارسلفی صاحب رحمہم اللہ کی سوانح عمریاں ’’اللہ کے چار ولی‘‘ کے نام سے تحریر کی۔ جب یہ کتاب مولانا محمد اسحاق بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو پیش کی گئی تو جماعت غربا کے امام کی مناسبت سے فی البدیہ یہ جملہ ارشاد فرمایا: ’’کتاب کا نام اللہ کے چار ولی کے بجائے، جماعتِ غربا کے ائمہ اربعہ ہونا چاہیے تھا۔‘‘ حاضرین اس حسِ مزاح سے خوب محظوظ ہوئے۔
Flag Counter