Maktaba Wahhabi

75 - 924
’’آپ نے بڑی محنت سے رسائل و جرائد کے اہداف اور مدیرانِ کرام کا تعارف پیش کیا ہے، مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ کوئی شخص بھی کتاب دیکھ کر آپ کو تحسین یا شکریہ کا خط نہیں لکھے گا، جب کہ آپ نے ان کا بڑے اچھے الفاظ میں تذکرہ کیا ہے اور ان کے پرچے کے اہداف پر قلم اٹھایا ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ میں نے شخصیت نگاری پر متعدد کتابیں لکھی ہیں ، مگر کوئی شخص تحسین اور حوصلہ افزائی کا خط نہیں لکھتا۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ یہ بات درست ہے کہ اللہ کی رضا ہی پیشِ نظر ہونی چاہیے، مگر دوستوں کی حوصلہ افزائی سے مزید کام کرنے کو دل چاہتا ہے۔‘‘ انھوں نے ایک دوست کی بڑی حوصلہ شکن بات بتائی کہ انھوں نے اپنے ایک عالمِ دین دوست کو خط لکھا کہ آپ میری زیرِ ترتیب کتاب کے لیے اپنے حالاتِ زندگی بھیج دیں ، لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ ایک اور خط لکھ دیا، پھر بھی جواب سے محروم رہا اور بڑا افسوس ہوا کہ ان سے میرے اچھے تعلقات بھی ہیں ، پھر بھی انھوں نے میرے خط کا جواب تک دینے کی زحمت گوارا نہیں فرمائی۔ چنانچہ ایک روز اتفاقاً مجھے اُردو بازار میں مل گئے۔ سلام و دعا کے بعد میں نے پوچھا کہ میرے خط مل گئے ہیں ؟ کہنے لگے: میں ملک سے باہر تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خط تو مل گئے ہیں ، ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے جواب نہیں دیا۔ میں نے کہا ہے کہ اب تو ملک میں آگئے ہیں ؟ اس پر وہ پریشان ہوئے۔ خلافِ معمول میری کچھ کڑوی سی باتیں بہت سے دوستوں نے سنیں ، مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ خیر میں السّلام علیکم کہہ کر چلا آیا۔ اب بھٹی صاحب فرمانے لگے کہ لٹریچر کی اشاعت جماعتوں کا کام ہوتا ہے، جن کے پاس وسائل ہوتے ہیں اور نکاسی کے لیے ذرائع بھی۔ پھر فرمایا کہ مجھے تسلیم ہے کہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان بہت بڑی اور اہلِ حدیث کی نمایندہ جماعت ہے، مگر دوسرے گروپوں کے پاس بھی کچھ نہ کچھ علما اور کارکن احباب موجود ہیں ۔ اگر تمام جماعتیں اکٹھی ہو جائیں تو اہلِ حدیث بہت بڑی قوت بن سکتے ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ اس سلسلے میں کوششیں ہوتی رہی ہیں ، اب بھی اس سے کسی کو انکار نہیں ، اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے۔ بھٹی صاحب نے تاریخ کے ورق الٹتے ہوئے فرمایا کہ ایک روز مولانا سید محمد داود غزنوی رحمہ اللہ نے مجھے حکم دیا: ’’مولوی اسحاق! تیار ہو، آج جماعت کے تنظیمی سلسلے میں جھنگ جانا ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ حاضر ہوں ، چنانچہ ظہر کی نماز پڑھ کر چل پڑے۔بھائی پھیرو تک محترم مولانا وظائف میں مصروف رہے اور میں خاموش رہا۔ پھر مولانا نے ارشاد فرمایا: ’’مولوی اسحاق! کوئی بات کرو، خاموش بیٹھے ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ آپ کی موجودگی میں مَیں کیا بات کروں ؟ فرمایا کہ ’’میری موجودگی میں بات کرنا کوئی گناہ ہے؟‘‘ میں خاموش رہا۔ پھر چند لمحوں کے بعد میں نے عرض کیا کہ آپ نے پنجاب کانگریس کی صدارت سے
Flag Counter