Maktaba Wahhabi

76 - 924
استعفیٰ کیوں دیا تھا؟ فرمانے لگے کہ ’’پاکستان بنتا سامنے نظر آرہا تھا، میرے اس فیصلے اور بیان کی اہمیت کے پیشِ نظر بی بی سی نے بھی اسے نشر کیا۔‘‘ پھر میں نے عرض کیا کہ اس فیصلے کا ردّعمل کیا ہوا؟کہنے لگے کہ ’’مسلم لیگی حلقوں میں بے حد سراہا گیا۔ البتہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے مجھ سے ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھ سے مشورہ تو کر لیتے، اس سے آپ کو فائدہ ہوتا۔ میں نے کہا کہ استخارہ کر لیا تھا۔ چند دنوں بعد پھر مولانا آزاد مرحوم سے ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو حسبِ سابق مجھے اپنے خصوصی کمرے میں لے گئے اور دیر تک گفتگو کرتے رہے اور بڑے اچھے انداز میں مجھے الوداع کہا۔‘‘ جھنگ کے لیے ہمارا سفر جاری تھا کہ چند لمحے خاموشی رہی، پھر فرمایا کہ ’’مولوی اسحاق! جماعتوں میں نظم قائم کرنا مشکل کام ہے۔ آج ہم اسی مقصد کے لیے جھنگ جا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو۔‘‘ ابھی یہ گفتگو جاری تھی کہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی صاحب تشریف لے آئے اور ساتھ ہی بھٹی صاحب کا عزیز مکتبہ اسلامیہ غزنی سٹریٹ سے بھٹی صاحب کی نئی کتاب ’’تذکرہ مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ حالات، خدمات، خاندان‘‘ لے کر آیا۔ پھر یہی کتاب موضوعِ گفتگو بن گئی۔ کتاب بڑی جامع ۴۵۵ صفحات پر مشتمل ہے، جس پر پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی صاحب نے بڑا جاندار اور شاندار مقدمہ لکھا ہے، جو ۱۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اب میں نے بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے اجازت چاہی، مگر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں ، کتاب کا ابھی افتتاح ہونا ہے اور مٹھائی بھی آرہی ہے۔ چنانچہ ان امور سے فارغ ہو کر واپس آیا۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے کتاب کا ایک نسخہ مجھے مرحمت فرمایا، جسے میں سفر میں پڑھتا رہا اور خاندان لکھوی کے اسلاف و اخلاف کی خدمات پڑھ کر ان کے لیے دل سے دعائیں بھی نکلتی رہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ بھٹی صاحب نے حسبِ سابق اس کتاب کی تالیف و ترتیب میں بڑی محنت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ ہم نے ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ میں اس پر تبصرہ بھی شائع کیا ہے۔
Flag Counter