Maktaba Wahhabi

78 - 924
کی مجالس میں شرکت، مختلف طبقات کی میٹنگوں میں شمولیت اور ملک و بیرون ملک کے مختلف اسفار اور سب کی طرح اپنی روز مرہ کی مصروفیات کے باوجود اتنا تحریری کام کیسے کر گئے؟ میری معلومات اور رائے کے مطابق یہ برکت ان کی صلہ رحمی کے باعث تھی۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا کیں ، وہ اُنھوں نے ترجیحاً اپنے بہن بھائیوں پر نچھاور کر دیں ۔ اُنھوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ بنایا ہو، کم ازکم میرے علم میں نہیں ۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور ان کی اولاد کی ممکن حد تک پرورش بھی کی، تربیت بھی کی، ان کی زندگی کے استحکام کا خیال بھی رکھا، ان کے بچوں کی عائلی زندگی کو استوار بھی کیا اور ان کے لیے شجر سایہ دار اس طرح بن کر رہے کہ خود دھوپ جھیل کر ان کو سایہ دیتے رہے۔ بہن بھائیوں کے علاوہ دیگر عزیز واقارب سے بھی حسنِ سلوک مثالی تھا اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس سے زندگی میں برکت آتی ہے اور مولانا بھٹی صاحب کی زندگی کی علمی و عملی برکت تو ایک عالم پر آشکار ہے۔ اب ان کے لیے دعائے مغفرت کے ڈھیر بھی ایسی برکت ہیں ، جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ نعمت کسبی ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر کسی کے ساتھ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی تواضع اور انکسار بھی مثالی تھا، ہم عصر علما، برخوردار علما بلکہ ہم جیسے تمام برخورداروں کے ساتھ ان کا انکسار دیدنی ہوتا تھا۔ المکتبۃ السلفیۃ نے ان کی تصنیف ’’قاضی محمد سلیمان منصوری پوری‘‘ طبع کی تھی۔ ٹائٹل پر ہم نے مولانا ۔۔۔ جو ناشرین میں سے شاید ہم ہی نے شروع کیا تھا۔۔۔ محمد اسحاق بھٹی لکھ کر دکھایا تو اُنھوں نے لفظ ’’مولانا‘‘ کاٹ دیا۔ جب ہم نے اصرار کیا تو فرمانے لگے کہ قاضی صاحب رحمہ اللہ کی سوانح پر ’’مولانا‘‘ لکھوانے پر طبیعت آمادہ نہیں ، لہٰذا اس کو کاٹ کر صرف ’’محمد اسحاق بھٹی‘‘ لکھو۔ دوسرے مصنفین و مولفین کی صلاحیتوں کی صفات اور خوبیوں کا اعتراف بھی وہ کھلے دل سے کرتے۔ جب اُنھوں نے روپڑی علما پر کتاب لکھی تو حافظ محمد عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے تفقّہ اور اُردو زبان پر ان کی دسترس کا ذکر اکثر فرماتے اور یہ کتاب لکھ کر بہت مسرور ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک بہت بڑی خدمت سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس کے بعد ہی اُنھوں نے لکھوی خاندان کے بکھرے حالات جمع کرکے لکھنے کا ارادہ کیا۔ پھر ڈاکٹر حماد لکھوی کے توسط سے ان کے برادران اور خاندان کے بعض حالات میسر ہو گئے تو مولانا محی الدین لکھوی رحمہ اللہ پر ایک ایسی کتاب لکھ دی، جس میں حتی الامکان لکھوی خاندان کے اکثر حالات وہ ضمناً لے آئے۔ مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ پر بھی ایک کتاب لکھنا چاہتے تھے، لیکن زندگی نے مہلت ہی نہ دی۔ وہ لکھوی خاندان کی صالحیت، ذہانت، بیدار مغزی اور خوش اخلاقی سے بہت متاثر تھے۔ علمائے غزنویہ اُن کی عقیدت کا مرجع تھے کہ انھیں ایک طویل عرصہ حضرت مولانا محمد داود غزنوی رحمہ اللہ کے قرب کا شرف حاصل رہا اور ان کی جلوت و خلوت میں خدمت گزاری سے بھی وہ بہرہ ور ہوئے۔ اس لیے اب وہ علمائے
Flag Counter