Maktaba Wahhabi

79 - 924
غزنویہ پر بہت نادر معلومات سمیٹے ہوئے ایک کتاب لکھ رہے تھے، بلکہ لکھ چکے تھے کہ کتاب اختتام کے قریب پہنچ چکی تھی، جسے طبع کرنے کی خواہش کا راقم نے جب اظہار کیا تو اُنھوں نے از راہِ شفقت وعدہ بھی فرما لیا تھا۔[1] تنظیمی لحاظ سے مولانا اسحاق بھٹی رحمہ اللہ کی نہ صرف ہمدردیاں مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے ساتھ رہیں ، بلکہ ’’برصغیر میں اہلِ حدیث کی سرگزشت‘‘ لکھ کر اہلِ حدیث کی صد سالہ تاریخ بھی اُنھوں نے تحریر کر دی اور ساتھ ہی پاکستان میں منعقدہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کی تمام کانفرنسوں کے ’’خطباتِ استقبالیہ اور صدارت‘‘ تلاش کرکے ترتیب دے دیے۔ ان دونوں غیر ثمر آور کتب کی اشاعت کی سعادت بحمد اللہ المکتبۃ السلفیۃ کے حصے میں آئی۔ قارئین تو صرف پڑھ کر داد ہی، وہ بھی کوئی کوئی، دینا جانتے تھے، لیکن مرحومین علما کے حالات جمع کرنا اور مذکورہ علما کے ورثا اور تلامذہ کی عدمِ دلچسپی اور ان کی بے اعتنائی کو بھگتنا بھی اس قدر جان گسل مرحلہ ہوتا ہے کہ بڑوں بڑوں کا پِتا پانی ہو جاتا ہے، لیکن مولانا مرحوم خط کتابت، ٹیلی فون اور ایک نہیں کئی کئی ملاقاتیں کرکے وہ جگر لخت لخت جمع کرتے، تب کہیں کتاب تیار ہوتی۔ اور تو کسی کا پتا نہیں ، بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہم خوردوں کی کوتاہیوں پر شفقت بھری سرزنش بھی فرماتے رہے، جس میں ان کا بنیادی ارشاد یہ ہوتا تھا کہ تم تازہ ترین اخبارات و جرائد پڑھتے نہیں ۔ وہ فرماتے کہ ایڈیٹر کا کام تمام آمدہ رسائل و جرائد کو باقاعدگی سے پڑھنا ہوتا ہے، جس سے عالمی حالات، مسلمِ اُمہ کے احوال اور وطنِ عزیز کی تازہ ترین صورتِ حال علم میں آجاتی ہے اور صحافت کی بنیاد یہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی فقہی مسائل پر مختلف مکاتبِ فکر کی آرا کا ادراک کر کے ادارے کی پالیسی پر لکھنا چاہیے۔ ایسے ہی کم از کم میری(تحریری)زبان کی اصلاح بہت فرماتے، خصوصاً
Flag Counter