Maktaba Wahhabi

97 - 924
تھا، ۱۹۶۸ء میں اجلاسِ عام مدرسہ شمس العلوم سمرا(سدھارتھ نگر، یوپی)کے لیے نظم استقبالیہ لکھی، اسے سننے کے بعد اسٹیج سیکرٹری(جماعت کے کہنہ مشق شاعر اور سحر البیان خطیب مولانا انجم جمال اثریؔ)نے فرمایا کہ ’’اگر یہ بچہ شاعری کرتا رہا تو اپنے دور کا اقبال ہوگا۔‘‘ حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ ۱۹۷۸ء میں مدینہ یونیورسٹی کے لیے رختِ سفر باندھتے وقت میں نے جذبات سے مغلوب ہو کر شاعری سے توبہ کر لی اور بقول بھٹی صاحب رحمہ اللہ ’’شاعری کا گلہ گھونٹ دیا۔‘‘ اپنے اس رویے کے سبب میں جناب بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی ظرافت نما تنقید یا تنقید نما ظرافت کی زد میں آیا، ارشادِ گرامی ملاحظہ ہو: ’’میرے خیال میں یہ محض تکلف ہے، نہ شعر کہنا اور اس سے نفرت کرنا دینداری ہے اور نہ ترک شعر گوئی کی دعا کرنا مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کے شرائط میں شامل ہے، بلکہ شعر گوئی ذوق کی بلندی کی علامت ہے اور کسی عالمِ دین کا شاعر ہونا اس کی قابلیت کا ایک اضافی اعزاز ہے۔۔۔۔‘‘(دبستانِ حدیث، ص: ۶۲۴) تقریباً ترکِ شاعری کے تینتیس سال بعد اس بے لاگ تبصرے نے مجھے جھنجھوڑا، ’’دبستانِ حدیث‘‘ کے متعارف قارئین کو بھی مجھے چھیڑنے کا مناسب موقع ہاتھ آگیا۔ ۶؍ جنوری ۲۰۱۱ء کو اس لمبی مدت کے بعد پھر طبع آزمائی شروع ہوئی اور ایک سال کے اندر شاعری نہیں ، تک بندی کے چار مجموعے(’’مسدس شاہراہِ دعوت‘‘، ’’الوداع‘‘، ’’محاسنِ اسلام‘‘ اور ’’پاکیزہ شاعری: ضرورت و اہمیت‘‘)تیار ہوئے۔ پہلے دونوں مجموعے مطبوع اور دوسرے دونوں زیرِ طبع ہیں : ؂ پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن مجھ کو پھر نغموں پہ اُکسانے لگا مرغ چمن میں نے ’’مسدس شاہراہِ دعوت‘‘ کی قافیہ پیمائی کے وقت طے کر لیا تھا کہ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ سے اس تنقید کا انتقام ضرور لینا ہے، چنانچہ اس مجموعے کا ان کی طرف انتساب کرکے اور اس پر ان سے ’’حرفے چند‘‘(مقدمہ)لکھوا کر لے ہی لیا۔ ’’انتساب‘‘ کے کلمات درج ذیل ہیں : ’’برصغیر کے مشہور مورّخ، نامور صحافی اور عظیم سوانح نگار علامہ محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ کے نام۔ یہ ’’مسدس‘‘ ان کی کتاب ’’دبستانِ حدیث‘‘ میں میرے ’’ترکِ شاعری‘‘ پر ’’تبصرہ‘‘ کی رہینِ منت ہے۔‘‘ میرے علم کے مطابق بفظلہ تعالیٰ اس ’’مسدس‘‘ پر اب تک کے تقریباً بیس جرائد و مجلات میں مختلف شعرا اور دیگر باذوق حضرات کے منثور و منظوم تبصرے شائع ہو چکے ہیں اور سلسلہ جاری ہے۔ برصغیر کے گوشہ نشین خزینۂ معلوماتِ عامہ، تاریخ و ثقافت اور شعر و ادب کے ممتاز مبصر اور میدانِ صحافت میں آبروئے جماعت علامہ ابن احمد نقویؔ نے مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی طرف کتاب کے انتساب پر فرمایا: ’’گویا علامہ بھٹی کی تحریر نے شیخ صلاح الدین مصلح کے حق میں وہ کام کیا، جو اقبال کے ’’ترکِ شاعری‘‘ کے معاملے میں پروفیسر آرنلڈ کی رائے نے کیا تھا۔‘‘(مسدس، ص: ۳۷)
Flag Counter