Maktaba Wahhabi

98 - 924
مسدس کا پہلا اِڈیشن ۸۳۴ ابیات پر مشتمل تھا، اب وہ دوسرے اِڈیشن کے لیے اصلاح اور حذف و اضافے کے مرحلے سے گزر رہا ہے، جس میں اب تک اشعار کی تعداد تقریباً(۱۷۰۰)پہنچ گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھٹی صاحب رحمہ اللہ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور میرے اس مجموعے کو دنیا و آخرت میں درجۂ قبولیت سے نوازے۔ آمین ۲۔ مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کویت آگیا، قلم و قرطاس سے رشتہ قائم ہوا اور تقریباً اب تک عربی میں تیس کتابیں معرضِ وجود میں آچکی ہیں ، لیکن افسوس کہ اردو میں کام کا زیادہ موقع نہ مل سکا۔ہمارے بزرگ بھٹی صاحب رحمہ اللہ راقم کی علمی اور تحقیقی خدمت پر ’’بہ صمیم قلب مبارکباد‘‘ پیش کرنے کے بعد رقم طراز ہیں : ’’وہ عربی میں تحقیقی کام ضرور کریں ، لیکن جس ملک سے ان کا اصل تعلق ہے، اس ملک کے لوگوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، وہاں کے مسلمان جو ہماری اطلاع کے مطابق پچیس چھبیس کروڑ کے لگ بھگ ہیں ، اردو بولتے ہیں ، اردو لکھتے ہیں ، ان کا اسلام سے رابطہ مضبوط رکھنے کے لیے اہلِ علم پر فرض ہے کہ اظہار و بیان میں اردو کو اہمیت دی جائے۔‘‘(دبستانِ حدیث، ص: ۶۳۳) ۳۔ راقم کی دو قدرے معروف کتابوں ایک ’’زوابع في وجہ السنۃ قدیماً و حدیثاً‘‘(جس میں دفاعِ سنت کا فریضہ انجام دیا گیا ہے)اور دوسری ’’دعوۃ شیخ الإسلام ابن تیمیۃ و أثرھا في الحرکات الإسلامیۃ المعاصرۃ‘‘(جس میں تقریباً تمام اہم معاصر تحریکوں کا جائزہ لیا گیا ہے)پر صوفیت اور کوثریت سے متعلق تحریروں پر ان حلقوں کی طرف سے تنقید بھی ہوئی ہے، ’’جسے میں اپنے لیے شرف سمجھ رہا ہوں ۔‘‘ میرے اس کلام پر ہمارے بزرگ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میرے سامنے افسوس ہے ان کی کوئی تحریر اور کوئی کتاب نہیں ۔ اگر ان کا کوئی تحریری مواد میرے پیش نگاہ ہوتا، تو ممکن ہے میں بھی اس کے کسی پہلو پر’’تنقید‘‘ کرکے ان کے لیے ’’شرف سمجھنے‘‘ کا اعزاز حاصل کرتا۔۔۔۔‘‘(دبستانِ حدیث، ص: ۶۲۹) ۴۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ مولانا بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی گزارشات کے ذریعے ’’تصوف اور صوفیہ‘‘ کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کا بھی موقع ملا اور ان کو بھی میری ’’بعض تصانیف کے ناموں سے‘‘ اشارہ ملا کہ میں اس مشرب کا آدمی نہیں ہوں ، بلکہ صوفیت کے ناقدین میں سے ہوں ۔ فرماتے ہیں : ’’دوسری گزارش یہ ہے کہ بیس پچیس برس سے ہمارے بعض اصحابِ قلم نے صوفیہ پر تنقید کو اپنے لیے ضروری قرار دے رکھا ہے۔ مولانا صلاح الدین کی بعض تصانیف کے ناموں سے اشارے ملتے ہیں کہ انھوں نے بھی اپنی تحقیق کے مطابق یہ فریضہ ادا فرمایا ہے۔ میں نے ان کی کتابیں نہیں پڑھیں ، اس لیے مجھے معلوم نہیں کہ ان کے نزدیک ’’صوفی‘‘ کی کیا تعریف(ڈیفی نیشن)ہے۔‘‘
Flag Counter