Maktaba Wahhabi

200 - 924
اس دور میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے پورے ملک سے ۱۵۰ ممبران تھے۔ شوریٰ کا ممبر ہونا ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، سرگودھا اور راولپنڈی کی مرکزی سالانہ کانفرنسوں میں شبان اہلِ حدیث فیصل آباد کے کارکنان نے انتظامی امور باحسن انجام دیے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے قریباً ہر شہر میں جمعیت اہلِ حدیث کی ذیلی تنظیم کے طور پر ’’شبان اہلِ حدیث‘‘ کا قیام عمل میں لایا جاتا رہا۔ جب دونوں دھڑے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث اور جمعیت اہلِ حدیث باہم متحد ہوگئیں تو شبان اہلِ حدیث کو اہلِ حدیث یوتھ فورس میں مدغم کر دیا گیا۔ محترم بھٹی صاحب رحمہ اللہ کا تعلق چونکہ فیصل آباد سے تھا اور فیصل آباد میں مولانا محمد اسحاق چیمہ رحمہ اللہ اور مولانا عبیداللہ احرار رحمہ اللہ سے ان کی گہری دوستی تھی، یہ تینوں دوست ہم عمر بھی تھے اور بے تکلف بھی۔ اس طرح خوشی غمی کے موقعوں پر جب یہ حضرات اکٹھے ہوتے تو ان کی خوش کن گفتگو اور لطائف و ظرائف سے ہم خوب محظوظ ہوتے۔ اس زمانے میں مرکز میں بھی اور یہاں فیصل آباد میں بھی جمعیت میں دھڑے بندیاں رہتی تھیں ، مگر بھٹی صاحب رحمہ اللہ فریق بننے کے بجائے ہمیشہ معاملات کو سلجھانے اور غلط فہمیوں کے ازالے کی کوشش میں رہتے۔ ملک کے بعض مقامات پر اس قسم کی فضا کو درست کرتے اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی تنظیم کو فعال بنانے میں وہ ہمیشہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کے ہمراہ ہوتے، کیوں کہ مولانا غزنوی رحمہ اللہ کا ان کو مکمل اعتماد حاصل تھا۔ گویا وہ مولانا رحمہ اللہ کے مشیرِ خاص بھی تھے اور جماعتی ترجمان ’’الاعتصام‘‘ کے فاضل مدیرِ اعلیٰ بھی۔ ملک کی دوسری دینی و سیاسی جماعتوں سے مولانا غزنوی رحمہ اللہ کی بات چیت اور مشوروں میں بھی بھٹی صاحب رحمہ اللہ کی صائب تجاویز و آرا کو وقعت دی جاتی۔ مجالسِ عاملہ و شوریٰ کی کارروائیوں کو ضبط تحریر میں لانا اور اخبارات و جرائد کے مدیران و نمایندگان سے رابطہ رکھنا، بس یوں سمجھئے کہ مرکزی جمعیت کے روحِ رواں بھٹی صاحب رحمہ اللہ ہی ہوتے تھے۔ جب ایک مرحلہ یہ آیا کہ بھٹی صاحب رحمہ اللہ نے بوجوہ ’’الاعتصام‘‘ کی ادارت کو خیر باد کہا تو انھوں نے سہ روزہ ’’منہاج‘‘ نکالا۔ جس کی توسیع کے لیے وہ فیصل آباد بھی تشریف لائے، دو تین روز ہمارے غریب خانے پر قیام کیا تو والد صاحب رحمہ اللہ کی محبت بھری باتوں اور مہمان نوازی و میز بانی سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ انھوں نے والد صاحب کے بارے میں اپنی زیرِ طبع کسی کتاب میں کچھ کوائف اور توصیفی کلمات بھی تحریر فرمائے ہیں ، جو ان کے حکم پر میں نے انھیں ارسال کئے تھے۔ ’’الاعتصام‘‘ سے مستعفی ہونے کے بعد وہ ادارہ ’’ثقافتِ اسلامیہ‘‘ میں چلے گئے، ادارے کے تحت ’’المعارف‘‘ ان کی زیرِ ادارت اشاعت پذیر ہوتا تھا۔ بالآخر گوشۂ تنہائی انھوں نے اختیار کرلیا، لیکن وہ جہاں بھی تھے، ہمارے ساتھ ان کی کشادہ ظرفی اور دوست نوازی کا سلسلہ بدستور قائم رہا۔ بھٹی صاحب رحمہ اللہ بلاشبہہ اپنی ذات میں ایک ادارہ اور انجمن کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کا سینہ بے بہا یادوں کا
Flag Counter