Maktaba Wahhabi

108 - 531
ان تمام کرنسی نوٹوں کا حکم بھی سونے چاندی جیسا ہی ہے جو آج لوگوں میں مروج ہیں، خواہ وہ درہم ہوں یا دینار یا ڈالر یا ان کا کوئی بھی اور نام ہو۔ جب ان کی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کے مطابق ہو اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی۔ عورتوں کے سونے یا چاندی کے زیورات کو بھی نقدی کے ساتھ ملایا جائے گا جب یہ نصاب کو پہنچ جائیں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں بھی زکوٰۃ واجب ہو گی خواہ وہ استعمال کرتی ہوں یا نہ کرتی ہوں۔ اس مسئلہ میں علماء کا صحیح ترین قول یہی ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے: (مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ، وَلا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا إِلا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ) (صحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب اثم مانع الزكاة‘ ح: 987) ’’سونے اور چاندی کا وہ مالک جو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا، قیامت کے دن جہنم کی آگ میں اسے چوڑے چوڑے پتروں کی صورت میں ڈھال کر گرم کیا جائے گا..‘‘ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن دیکھے تو فرمایا: (أَتُعْطِينَ زَكَاةَ هَذَا؟» قَالَتْ: لَا، قَالَ: «أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللّٰهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ ؟ فَأَلْقَتْهُمَا، وَقَالَتْ: هُمَا لِلّٰهِ وَلِرَسُولِهِ) (سنن ابي داود‘ الزكاة‘ باب الكنز ما هو؟ وزكاة الحلي‘ ح: 1563) ’’کیا تو اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا:’’نہیں‘‘ تو آپ نے فرمایا :’’کیا تجھے یہ بات پسند ہے کہ ان کے بدلے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے جہنم کی آگ کے دو کنگن پہنچا دے؟‘‘ اس عورت نے وہ دونوں کنگن اتار کر پھینک دئیے اور کہا کہ ’’وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ سونے کی پازیب پہنا کرتی تھیں تو انہوں نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ ! کیا یہ بھی کنز ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: (مَا بَلَغَ أَنْ يُؤَدَّى زَكَاتُهُ فَزُكِّيَ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ) (سنن ابي داود‘ الزكاة‘ باب الكنز ما هو؟ وزكاة الحلي‘ ح: 1564) ’’جو مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو وہ کنز نہیں ہے۔‘‘ اس مضمون کی اور بھی بہت سی احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر طرح کے زیور میں زکوٰۃ واجب ہے۔ سمان تجارت کی سال کے آخر میں قیمت لگالی جائے اور کل قیمت میں سے ڈھائی فی صد بطور زکوٰۃ ادا کر دیا جائے خواہ قیمت اس کی ثمن کے برابر ہو یا اس سے کم و بیش ہو، کیونکہ حدیث سمرہ میں ہے: (فَإِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ ) (سنن ابي داود‘ الزكاة‘ باب العروض اذا كانت للتجارة...الخ‘ ح: 1562) ’’یقینا رسول اللہ ہمیں یہ حکم دیا کرتے تھے کہ ہم سامان تجارت میں سے بھی زکوٰۃ نکالیں۔‘‘ ان تمام اراضی، عمارتوں، گاڑیوں اور تمام سامانوں میں بھی زکوٰۃ فرض ہے جو بغرض تجارت ہوں۔ وہ عمارتیں جو بیع کے
Flag Counter