Maktaba Wahhabi

382 - 531
(حُجِّي وَاشْتَرِطِي، أَنَّ مَحِلِّي حَيْثُ حَبَسْتَنِي) (صحيح البخاري‘ النكاح‘ باب الاكفاء في الدين‘ ح: 5089 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب جواز اشتراط المحرم...الخ‘ ح: 1207 واللفظ له) ’’حج کرو اور یہ شرط عائد کر لو کہ میں وہاں حلال ہو جاؤں گی، جہاں روک دی جاؤں گی۔‘‘ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔ جسے احرام سے قبل ہی حج سے روک دیا جائے سوال: جب کوئی انسان حج یا عمرہ کے لیے نکلے اور اسے راستے میں کوئی جماعت یا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے روک دیں تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ جواب: جس شخص کو کوئی دشمن یا رہزن حج سے روک دے تو یہ رکاوٹ احرام سے پہلے ہو گی یا بعد میں، لہذا اگر کوئی مسلم حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے نکلے اور احرام باندھنے سے پہلے ہی کوئی دشمن اسے مکہ جانے سے روک دے تو وہ اپنے گھر واپس آ جائے، اس پر کوئی فدیہ بھی لازم نہ ہو گا اور نیت کے مطابق اسے ثواب ملے گا اور جب راستے پر امن ہو جائیں تو پھر اسے فریضۂ حج جلد ادا کرنا چاہیے اور اگر حج یا عمرہ ادا کرنے کے لیے نکلے، میقات تک پہنچ جائے، احرام باندھ لے اور پھر دشمن اسے آگے نہ جانے دیں اور راستے میں رکاوٹ بن جائیں تو اسے چاہیے کہ ایک بکری ذبح کر دے اور محصر کی طرح حلال ہو جائے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں کیا ہے: (فَإِنْ أُحْصِرْ‌تُمْ فَمَا ٱسْتَيْسَرَ‌ مِنَ ٱلْهَدْىِ) (البقرة 2/196) ’’اور اگر تم (راستے میں) روک دئیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو)۔‘‘ اور اگر بکری نہ ملے تو احرام نہ کھولے اور دس روزے رکھے اور پھر احرام کھول کر حلال ہو جائے، اور اگر اس نے احرام کے وقت یہ شرط عائد کی ہو کہ اگر مجھے کسی روکنے والے نے روک دیا تو میں وہاں حلال ہو جاؤں گا جہاں کوئی مجھے روک دے گا تو پھر اس پر کوئی چیز لازم نہیں۔ اس صورت میں اس کے لیے یہ جائز ہے کہ قربانی کے بغیر ہی احرام کھول کر حلال ہو جائے۔ ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔ احرام حج کے بعد مکہ میں داخلہ سے روک دیا گیا سوال: جس شخص نے میقات سے احرام باندھا اور پھر وہ مکہ کے قریب پہنچ گیا مگر چیک پوسٹ والوں نے اسے مکہ میں داخل ہونے سے روک دیا کیونکہ اس کے پاس حج پاسپورٹ نہ تھا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ جواب: اس صورت میں جب اس کے لیے مکہ میں داخل ہونا مشکل ہو تو وہ محصر کے حکم میں ہے۔ اسے چاہیے کہ جہاں اسے روک دیا گیا ہو وہاں قربانی کا جانور ذبح کر دے اور احرام کھول کر حلال ہو جائے۔ اگر وہ یہ فرض حج ادا کرنے آ رہا تھا تو اسے بعد میں ادا کر لے اور یہ بعد میں ادا کرنا ادا ہی ہو گا قضا نہیں۔ اور اگر یہ حج فرض نہیں تھا تو پھر اس کے لیے کچھ بھی لازم نہیں، راجح قول یہی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کرام کو عمرہ کی قضا کا حکم نہیں دیا تھا جنہیں عمرہ کرنے سے غزوہ ٔحدیبیہ میں روک دیا گیا تھا۔ محصر کے لیے وجوب قضاء کا حکم کتاب اللہ میں ہے اور نہ سنت رسول میں، بلکہ فرمان باری تعالیٰ یہ ہے:
Flag Counter