Maktaba Wahhabi

141 - 531
طریقے کے بغیر ادا کرے کہ ان کے بارے میں خود رب کائنات نے یہ فرمایا ہے: (وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾) (النجم 3/53) ’’اور وہ (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی خواہش سے نہیں بولتے بلکہ وہ (قرآن تو) وحی ہے جو ان کی طرف بھیجی جاتی ہے۔‘‘ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ، فَهُوَ رَدٌّ) (صحيح البخاري‘ الصلح‘ باب اذا اصطلحوا علي صلح جور...الخ‘ ح: 2697) ’’جو شخص ہمارے اس دین (اسلام) میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا: ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْس عَلَيْهِ أمْرُنا؛ فَهْوَ رَدٌّ) (صحيح مسلم‘ الاقضية‘ باب نقض الاحكام الباطلة ...الخ‘ ح: 1718) ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا امر نہیں ہے تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کے بارے میں جو حکم دیا ہے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے وہ یہ کہ کھانے یا جو یا کھجور یا کشمش یا پنیر کا ایک صاع ہو، چنانچہ امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیھما نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے: (فَرَضَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْحُرِّ وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ والْأُنْثَى، والصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاةِ) (صحيح البخاري‘ الزكاة‘ باب صدقة الفطر‘ 1503‘1504 وصحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب زكاة الفطر علي المسلمين...الخ‘ ح: 984) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوۃ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو ہر غلام، آزاد، عورت، مرد، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض قراردیا اور حکم دیا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کے لیے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔‘‘ امام بخاری و مسلم نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی اس روایت کو بھی بیان کیا: (كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ ، وفي رواية. أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ) (صحيح البخاري‘ الزكاة‘ باب صاع من زبيب‘ ح: 1508 وصحيح مسلم‘ الزكاة‘ باب زكاة الفطر علي المسلمين...الخ‘ ح: 985) ’’ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھانے کا ایک صاع یا کھجور کا ایک صاع یا جو کا ایک صاع یا کشمش کا ایک صاع بطور صدقۂ فطر ادا کیا کرتے تھے۔‘‘ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صدقۂ فطر کے بارے میں یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں خاص طور پر مدینہ کے معاشرہ میں دینار اور درہم موجود تھے اور اس وقت یہی کرنسی مروج تھی لیکن صدقۂ فطر کے سلسلہ میں آپ نے دینار و درہم کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر انہیں صدقۂ فطر میں دینا جائز ہوتا تو آپ یہ ضرور بیان فرما دیتے، کیونکہ ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔ اگر یہ جائز ہوتا تو صحابہ کرام دینار
Flag Counter