Maktaba Wahhabi

157 - 531
تیس دن کی گنتی پوری کر لو۔‘‘اور ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں: (صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ ثَلاَثِينَ) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب وجوب صوم رمضان لرؤیۃ الهلال...الخ‘ ح: 1080) ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر چھوڑ دو۔ اگر مطلع ابر آلود ہو تو تیس دن کا اندازہ پورا کر لو۔‘‘ اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے: (فَإِنْ غُمِّيَ عَلَيْكُم الشَّهْر، فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب وجوب صوم رمضان لرؤیۃ الهلال...الخ‘ ح: 1081) ’’اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے تمہیں مہینے (کے اختتام ) کا پتہ نہ چل سکے تو پھر (وہ مہینہ) تیس (دنوں کا) شمار کرو۔‘‘ یہ احادیث اور ان کے ہم معنی دیگر احادیث سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم ساری امت کے لیے ہے۔ امام نووی نے ’’شرح المہذب‘‘ میں امام ابن منذر سے نقل کیا ہے کہ لیث بن سعد، امام شافعی اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ نیز وہ فرماتے ہیں کہ امام مدینہ وکوفہ یعنی امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔ اہل علم کی ایک اور جماعت کا یہ قول ہے کہ یہ حکم اس صورت میں ہے جب مطالع ایک ہوں اور اختلاف مطالع کی صورت میں ہر ایک مطلع کے لیے ان کی اپنی اپنی رؤیت کا اعتبار ہو گا۔ اس قول کو امام ترمذی نے اہل علم سے روایت کیا ہے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے امام مسلم نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ان کے پاس کریب، شام سے مدینہ میں، رمضان کے آخر میں آئے تو انہوں نے بتایا کہ شام میں جمعہ کی رات چاند نظر آیا ہے اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں نے روزہ رکھا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: لیکن ہم نے تو چاند ہفتہ کی رات دیکھا ہے لہذا ہم تو روزے رکھتے رہیں گے حتیٰ کہ (شوال کا) چاند دیکھ لیں یا گنتی پوری کر لیں۔ میں نے عرض کیا، کیا آپ معاویہ کی رؤیت اور ان کے روزے رکھنے پر اعتماد نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسی طرح حکم دیا ہے۔[1] ان اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما رؤیت کو عام نہیں سمجھتے بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ اہل بلد کے لیے ان کی اپنی رؤیت ہے جبکہ مطالع مختلف ہوں۔ ان اہل علم کا بھی کہنا ہے کہ مدینہ کا مطلع، شام کے مطلع سے مختلف ہے جب کہ بعض دیگر اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اہل شام کی رؤیت کے مطابق شاید اس لیے عمل نہ کیا ہو کہ اس کی شہادت کریب ہی نے دی تھی اور رمضان کے اختتام کے لیے ایک گواہ کی گواہی کے مطابق عمل نہیں کیا جا سکتا ہاں البتہ رمضان کے آغاز کے لیے ایک گواہ کی گواہی کے مطابق عمل کیا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ سعودی عرب کی مجلس کبار علماء کے اجلاس دوم منعقدہ شعبان 1392ھ میں بھی پیش کیا گیا تو ان علماء کی رائے یہ تھی کہ اس مسئلہ میں راجح بات یہ ہے کہ اس میں کافی گنجائش ہے، اپنے ملک کے علماء کی رائے کے مطابق ان اقوال سے اگر کسی ایک کے مطابق عمل کر لیا جائے تو یہ جائز ہے۔ میری رائے میں یہ ایک معتدل رائے ہے اور اس سے اہل علم کے
Flag Counter