Maktaba Wahhabi

197 - 531
حضرات صحابہ کرام نے رمضان میں جہاد کے سلسلہ میں آپ کے ساتھ سفر کیا تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا۔ اور اس کے بارے میں کسی ایک نے بھی دوسرے پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ ہاں البتہ اگر گرمی کی شدت، راستہ کی دشواری، دوری اور مسلسل سفر کی وجہ سے روزہ میں تکلیف ہو تو پھر مسافر کے لیے تاکید کے ساتھ حکم یہ ہے کہ وہ سفر میں روزہ نہ رکھے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ہم میں سے بعض لوگوں نے روزہ رکھا اور بعض نے روزہ نہیں رکھا تھا، روزہ نہ رکھنے والے ہشاش بشاش تھے اور انہوں نے کام کیا جب کہ روزہ رکھنے والے کمزور ہو گئے تھے اور وہ بعض کام نہ کر سکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ) (صحيح البخاري‘ الجهاد‘ باب فضل الخدمة في الغزو‘ ح: 2890 وصحيح مسلم‘ الصيام‘ باب اجر المفطر في السفر...الخ‘ ح: 1119) ’’ آج تو روزہ نہ رکھنے والوں نے اجروثواب حاصل کر لیا۔‘‘ کبھی کسی ہنگامی حالت کی وجہ سے یہ واجب بھی ہو جاتا ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے جیسا کہ حدیث ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کیا اور جب ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (إِنَّكُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ، وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ) ’’ تم اپنے دشمن کے بہت قریب ہو گئے ہو اور روزہ چھوڑ دینا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا۔‘‘ یہ ایک رخصت تھی اس لیے ہم میں سے کچھ لوگوں نے روزہ رکھا اور کچھ نے نہ رکھا، پھر ہم نے جب ایک دوسری منزل پر پڑاؤ ڈالا تو آپ نے فرمایا: (إِنَّكُمْ مُصَبِّحُوا عَدُوَّكُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ فَأَفْطِرُوا) (صحيح مسلم‘ الصيام‘ باب اجر المفطر في السفر اذا تولي العمل‘ ح: 1120) ’’ تمہاری دشمن سے مڈبھیڑ ہونے والی ہے، روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث تقویت ہو گا، لہذا روزہ چھوڑ دو۔‘‘ چونکہ آپ کی طرف سے یہ ایک تاکیدی حکم تھا اس لیے ہم سب نے روزہ چھوڑ دیا، راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزے رکھے بھی تھے۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں ایک آدمی کو دیکھا جس پر لوگ جمع ہوئے تھے اور اس پر سایہ کیا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک روزے دار ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ أَنْ تَصُومُوا فِي السَّفَرِ) (صحيح مسلم‘ باب جواز الصوم والفطر في شهر رمضان...الخ‘ ح: 1115) ’’یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم سفر میں روزہ رکھو۔‘‘ ۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
Flag Counter