Maktaba Wahhabi

262 - 531
اسی موضوع سے متعلق حسب ذیل سوال سماحۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: ’’ایک عورت یہ چاہتی ہے کہ وہ کسی کو اپنا وکیل بنا کر حج کے لیے بھیج دے کیونکہ اس شخص کو حج کے مسائل کا علم ہے اور اس عورت کو بھی اس پر اعتماد ہے کہ وہ تمام مناسک حج مکمل طور پر ادا کرے گا جب کہ اس عورت کو مناسک حج کا بہت کم علم ہے اور پھر ماہانہ معمول وغیرہ کی وجہ سے بھی حج میں خلل آنے کا اندیشہ ہے۔ نیز یہ عورت یہ بھی چاہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت اور گھر میں ان کی نگہداشت میں مصروف رہے۔ تو کیا اندریں صورت حال اس کے لیے شرعا یہ جائز ہے کہ کسی کو اپنا وکیل بنا کر حج پر بھیج دے؟ سماحۃ الشیخ نے اس کا یہ جواب دیا: انسان جب کسی کو حج کے لیے اپنا وکیل بناتا ہے تو اس کی حسب ذیل دو حالتیں ہوتی ہیں: 1۔ فرض حج کے لیے وکالت 2۔ نفل حج کے لیے وکالت حج اگر فرض ہو تو پھر یہ جائز نہیں کہ انسان کسی کو اپنا وکیل بنائے تاکہ وہ اس کی طرف سے حج اور عمرہ کرے الا یہ کہ دائمی مرض ہو جس سے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو یا بڑھاپے وغیرہ کی وجہ سے بیت اللہ تک پہنچنا ممکن ہی نہ ہو۔ اگر بیماری سے صحت یاب ہونے کی امید ہو تو پھر انتظار کرے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اسے صحت و عافیت عطا فرما دے تو اپنا حج خود کرے اور اگر حج ادا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو بلکہ آدمی خود حج کر سکتا ہو تو پھر اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ حج کے لیے کسی اور کو اپنا وکیل بنائے کیونکہ خود اس سے ذاتی طور پر مطالبہ ہے کہ یہ خود حج کرے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَلِلّٰهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلْبَيْتِ مَنِ ٱسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا) (آل عمران 3/97) ’’ اور لوگوں پر اللہ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے، وہ اس کا حج کرے۔‘‘ عبادات میں مقصود ہی یہ ہے کہ انسان انہیں خود سر انجام دے تاکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے وہ خود بندگی اور عاجزی و انکساری کا اظہار کر سکے اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی اور کو اپنا وکیل بناتا ہے تو وہ اس عظیم مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا جس کے لیے عبادات کا حکم دیا گیا ہو۔ حج اگر نفل ہو یعنی وہ شخص فرض حج پہلے ادا کر چکا ہو اور اب وہ حج یا عمرہ کے لیے کسی کو اپنا وکیل مقرر کرنا چاہتا ہو تو اس مسئلہ میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے جائز اور بعض نے ناجائز قرار دیا ہے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ بھی ناجائز ہے کہ انسان کسی کو نفل حج اور عمرہ میں اپنا وکیل بنائے کیونکہ عبادات میں اصول یہ ہے کہ انسان انہیں خود سر انجام دے جس طرح انسان روزوں کے سلسلہ میں کسی کو اپنا وکیل نہیں بنا سکتا اسی طرح حج میں بھی نہیں بن سکتا، ہاں البتہ اگر کوئی انسان فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ فرض روزے ہوں تو پھر وہ روزے اس کی طرف سے اس کے وارث کو رکھنے چاہئیں، اسی طرح اگر کوئی فوت ہو جائے اور وہ فرض حج ادا نہ کرسکتا ہو تو پھر اس کا وارث اس کی طرف سے حج کر سکتا ہے۔ حج چونکہ ایک بدنی عبادت ہے جسےانسان خود ہی سر انجام دیتا ہے اور جب یہ بدنی عبادت ہے تو پھر کسی اور کا اس کی طرف سے اس عبادت کو ادا کرنا صحیح نہیں ہے، سوائے ان صورتوں کے جن کا سنت میں ذکر آ گیا ہے اور نفل حج کے بارے میں سنت میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ امام احمد سے بھی ایک روایت یہ ہے کہ انسان کے لیے نفل حج یا عمرہ میں کسی کو وکیل بنانا صحیح نہیں ہے خواہ وہ خود قادر ہو یا نہ ہو، لہذا اس قول کی بنیاد پر صاحب ثروت و قدرت لوگوں کو چاہیے کہ وہ خود
Flag Counter