Maktaba Wahhabi

400 - 531
جانتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں انیس دن قیام فرمایا مگر اس دوران عمرہ نہیں کیا حالانکہ آپ کے لیے اب اس میں کوئی دشواری نہیں تھی، لہذا معلوم ہوا کہ جب کوئی شخص رمضان یا غیر رمضان میں عمرہ کے لیے آئے تو وہ حرم سے حل تک نہ جائے تاکہ بار بار عمرہ کرے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یا خلفائے راشدین سے یا حضرات صحابہ کرام میں سے کسی سے بھی ثابت نہیں ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں رمضان میں عمرہ کے لیے آیا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ ایک عمرہ اپنی ماں یا باپ یا کسی رشتہ دار وغیرہ کے لیے بھی کر لوں تو ہم عرض کریں گے کہ فوت شدگان کے لیے ایصال ثواب امور مشروع میں سے نہیں ہے۔ یعنی کسی بھی آدمی سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں یا باپ یا بہن وغیرہ کے لیے نیک عمل کرے، ہاں البتہ اگر کوئی ایسا کرے تو یہ جائز ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنی ماں کی طرف سے اپنے نخلستان میں صدقہ کریں،[1] اسی طرح ایک آدمی نے آپ کی خدمت میں جب یہ عرض کیا کہ میری امی اچانک فوت ہو گئی ہیں اور میرا گمان ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ کرتیں۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں![2] لیکن اس کے باجود آپ نے علی العموم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حکم نہیں دیا کہ اپنے فوت شدہ ماں، باپ یا دیگر رشتہ داروں کی طرف سے صدقہ کرو۔ ہر طالب علم کے لیے یہ بھی واجب ہے کہ وہ امر مشروع اور امر واجب میں فرق معلوم کرے، یعنی امر مشروع تو وہ ہے جس کے بارے میں ہر مسلمان سے یہ تقاضا ہے کہ وہ اسے ضرور سر انجام دے اور امر جائز وہ ہے جسے شریعت جائز تو ضرور قرار دیتی ہے لیکن ہر مسلمان سے اسے سر انجام دینے کا مطالبہ نہیں کرتی۔ یہاں بطور مثال میں اس صحابی کے واقعہ کی طرف اشارہ کروں گا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا تھا اور وہ جب بھی نماز پڑھتے تو اپنی قراءت کو سورۂ اخلاص پر ختم کرتے،[3] واپسی پر صحابہ کرام نے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس سورت میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ ہے، لہذا میں اس سورت سے محبت رکھتا ہوں، یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جاؤ انہیں بتا دو کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے محبت رکھتا ہے‘‘ لیکن اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ اپنی ہر قراءت کو سورہ ٔاخلاص پر ختم فرمائیں اور نہ آپ نے امت کو اس کی تلقین فرمائی۔ اس سے امر مشروع اور امر جائز میں فرق واضح ہو گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اگر آپ نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو اجازت دی کہ اپنی ماں کی طرف سے باغ کو صدقہ کریں یا اس سائل کو اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کرنے کی اجازت دی اس کے یہ معنی نہیں کہ ہر شخص کے لیے یہ حکم شریعت ہے کہ وہ ایسا ضرور کرے، ہاں البتہ کوئی ایسا کرتا ہے تو اس سے اسے ضرور نفع پہنچتا ہے جس کی طرف سے صدقہ کیا جائے، لیکن ہمیں حکم شریعت یہ ہے کہ اپنے والدین کے لیے دعا کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
Flag Counter