Maktaba Wahhabi

446 - 531
نے یہ مسئلہ اس کے سامنے پیش کیا تو اس نے کہا کہ میں وہ گاڑی تمہیں خرید کر دیتا ہوں لیکن قسطوں کی وجہ سے دس ہزار زیادہ قیمت وصول کروں گا تو میں نے شو روم پر جا کر پانچ سو ریال بیعانہ دے دیا اور پھر وہ میرے ساتھ شو روم پر آیا، گاڑی خریدی، تحریر لکھ دی اور اس نے اس کی نقد قیمت ادا کر دی اور جب ہم شو روم سے باہر نکلے تو اس نے پوچھا کہ گاڑی کہاں ہے؟ میں نے اسے گاڑی دکھائی تو اس نے کہا کہ تمہیں گاڑی مبارک ہو اور یہ کہہ کہ وہ چلا گیا۔ میں نے گاڑی لے لی جبکہ وہ اس کے نام پر ہے اور اس کے بعد میں نے حسب معاہدہ ماہانہ قسطیں ادا کرنا شروع کر دیں، تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ بیع جائز ہے یا ناجائز؟ گاڑی تقریبا ایک سال سے میرے قبضہ میں ہے اور میں اسے قطعا اس شرط کے ختم کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتا جو زیادہ قیمت ادا کرنے کے سلسلہ میں اس سے کی تھی۔ میری اس مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔ جواب: یہ بیع حرام اور سود کے لیے ایک حیلہ ہے کیونکہ حقیقت امر یہ ہے کہ اس آدمی نے آپ کو گاڑی کی قیمت سود پر قرض دی ہے اور اس نے اسے محض صوری طور پر خریدا ہے جبکہ اس کا اپنے لیے گاڑی خریدنا مقصود نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جن امور کو حرام قرار دیا ہے، وہ حیلہ سازیوں سے حلال نہیں ہو جاتے بلکہ حیلہ سازیوں سے تو قباحت اور خباثت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ حیلہ سازیاں آدمی کو ان یہودیوں کے مشابہہ بنا دیتی ہیں جو گھٹیا حیلوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ باتوں کو حلال ٹھہرا لیا کرتے تھے، چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: (قَاتَلَ اللّٰهُ الْيَهُودَ، إِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمْ الشُّحُومَ، فَأَجْمَلُوهُ، ثُمَّ بَاعُوه فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب بيع الميتة والاصنام‘ ح: 2236 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب تحريم بيع الخمر والميتة...الخ‘ ح: 1581) ’’اللہ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے جب اللہ تعالیٰ نے ان پر جانوروں کی چربیوں کو حرام قرار دیا تو انہوں نے ان چربیوں کو پگھلا کر بیچ دیا اور ان کی قیمت کو کھانے لگے۔‘‘ اصحاب سبت کے واقعہ کو تو ہر مومن کتاب اللہ میں پڑھتا ہے کہ دریا کے کنارے آباد بستی کے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن مچھلی کے شکار کو حرام قرار دیا تھا اور ان کی آزمائش کے طور پر ہفتہ کے دن سطح آب پر مچھلیاں اس قدر کثرت سے نمودار ہوتی تھیں کہ دوسرے دنوں میں اس طرح نمودار نہیں ہوتی تھیں، لیکن جب مدت دراز ہو گئی تو انہوں نے دیکھا کہ اب مچھلی کے شکار کے بغیر چارہ کار نہیں تو انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ جمعہ کے دن پانی میں جال ڈال دیتے تھے، ہفتہ کے دن آنے والی مچھلیاں ان کے جال میں پھنس جاتی تھیں اور یہ اتوار کے دن انہیں اپنے جال سے نکال لیا کرتے تھے، تو پھر انہیں اس حیلہ سازی کی سزا کیا ملی؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ ٱلَّذِينَ ٱعْتَدَوْا۟ مِنكُمْ فِى ٱلسَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا۟ قِرَ‌دَةً خَـٰسِـِٔينَ ﴿٦٥﴾ فَجَعَلْنَـٰهَا نَكَـٰلًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٦٦﴾ (البقرة 2/65-66) ’’اور تم ان لوگوں کو خوب جانتے ہو جو تم میں سے ہفتے کے دن (مچھلی کا شکار کرنے) میں حد سے تجاوز کر گئے تھے تو ہم نے ان سے کہا کہ ذلیل و خوار بندر ہو جاؤ اور اس قصے کو اس وقت کے لوگوں کے لیے اور جو ان کے بعد آنے والے تھے عبرت اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت بنا دیا۔‘‘
Flag Counter