Maktaba Wahhabi

448 - 531
یاد رہے کہ اس معاملہ میں کسی حیلہ سازی سے کام لینا اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کے بارہ میں حیلہ سازی ہے اور اس ذات اقدس کے ساتھ مکر و فریب ہے جو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے بھید سے خوب آگاہ ہے۔ یاد رہے حیلوں بہانوں سے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور اس وقت حلال نہیں ہو جاتے، جب ان کی ظاہری صورت حلال مگر ان سے مقصود حرام ہو اور پھر حیلہ سازیوں سے تو حرام امور کی قباحت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ حیلہ کرنے والا دو حرام کاموں کا ارتکاب کرتا ہے (1) احکام الہٰی کے ساتھ مکرو فریب اور تلاعب اور (2) اس حرام کا ارتکاب جس کے لیے اس نے حیلہ سے کام لیا ہے۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کے بارے میں حیلہ سازی وہ جرم ہے جس کا یہودیوں نے ارتکاب کیا تھا، اس لیے حیلہ سازی کرنے والا یہودیوں کے مشابہہ بھی ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے: (لَا تَرْتَكِبُوا مَا ارْتَكَبَتِ الْيَهُودُ، فَتَسْتَحِلُّوا مَحَارِمَ اللّٰهِ بِأَدْنَى الْحِيَلِ) (تفسير ابن كثير: 1/160‘ 2/1168‘ مطبوعه دارالسلام‘ بحواله ابو عبداللّٰه بن بطة) ’’ تم اس جرم کا ارتکاب نہ کرو جس کا یہودیوں نے ارتکاب کیا تھا اور وہ یہ کہ گھٹیا حیلوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کو حلال ٹھہرانے لگ جاؤ۔‘‘ جو شخص بھی خواہش نفس سے پاک ہو کر غور کرے گا، اسے معلوم ہو جائے گا کہ جو شخص گاڑی کے خریدار سے یہ کہے کہ جاؤ شو روم میں جا کر اس گاڑی کو پسند کر لو جسے تم خریدنا چاہتے ہو تو میں اسے شو روم سے خرید کر تمہیں قسطوں پر بیچ دوں گا۔۔۔ یا وہ زمین کے خریدار سے کہے کہ سکیم میں جا کر اس زمین کو پسند کر لو جسے تم خریدنا چاہتے ہو اور پھر اس پلاٹ کو خرید کر میں تمہیں قسطوں میں بیچ دوں گا۔ یا مکان بنانے کے لیے لوہے کے ضرورت مند سے کہے یا سیمنٹ کے ضرورت مند سے کہے کہ فلاں مارکیٹ میں جا کر لوہے اور سیمنٹ کو پسند کر لو جسے تم خریدنا چاہتے ہو تو اسے میں خرید کر قسطوں پر تمہیں بیچ دوں گا۔ تو جو شخص بھی خواہش نفس سے پاک ہو کر ان صورتوں پر غور کرے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ محض سود کے لیے ایک حیلہ ہے کیونکہ جس تاجر نے مذکورہ بالا سامان خریدا ہے ، اس کا مقصد یہ سامان خریدنا نہ تھا اور نہ اس کا ایسا کوئی ارادہ تھا اور نہ اس نے ضرورت مند کے ساتھ احسان کے لیے اسے خریدا ہے، بلکہ اس نے تو اسے محض اس لیے خریدا ہے کہ جس مدت کے لیے یہ قرض دے رہا ہے اس کے عوض فائدہ حاصل کر سکے اور جیسے جیسے اس کے ادا کرنے کی مدت میں اضافہ ہو گا اس فائدہ میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ حقیقت میں اس کی مثال اس طرح ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ ان اشیاء کی قیمت میں تجھے قرض دے دیتا ہوں لیکن اس پر تمہیں سود ادا کرنا ہو گا لیکن اس نے درمیان میں سامان کو داخل کر لیا ہے جیسا کہ ثابت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک آدمی کے بارے میں یہ پوچھا گیا کہ اس نے دوسرے آدمی کو ایک سو درہم میں حریرہ بیچا اور پھر اس سے پچاس درہم میں خرید لیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ درہموں کی درہموں کے اضافہ کے ساتھ بیع ہے اور درمیان میں حریرہ داخل ہو گیا ہے۔ حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ تہذیب السنن (5/103) میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ ربا ہے اور اس کی حرمت اس کے معنی کے تابع ہے اور بیع کی صورت کے نام بدلنے سے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہو گی۔‘‘ اگر آپ اس مسئلہ کا مسئلہ عینہ کے ساتھ تقابل کریں تو اسے مسئلہ عینہ کی بعض صورتوں کی نسبت زیادہ قریب پائیں گے
Flag Counter