Maktaba Wahhabi

521 - 531
بھی کرتا ہے اور جب مدت مقررہ آ جاتی ہے تو بینک اصل قرض کے علاوہ سود اور جرمانہ کی رقم بھی نقد وصول کرتا ہے اور اگر مقروض مدت مقررہ پر نہ ادا کر سکے تو بینک ہر دن کے حساب سے سود وصول کرتا ہے۔ الغرض اس بینک کی ساری آمدنی قرضوں کے سود اور تاخیر کی صورت میں وصول کئے جانے والے جرمانوں پر مشتمل ہے اور اس سے بینک کے ملازمین کو تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔ میں اس بینک میں بیس سال سے زیادہ عرصہ سے کام کر رہا ہوں، بینک کی تنخواہ ہی سے میں نے شادی کی ہے اور اسی سے گزر بسر، بچوں کی پرورش اور صدقہ کرتا ہوں اور اس کے سوا میرا اور کوئی آمدنی کا ذریعہ نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کے بارہ میں حکم شریعت کیا ہے؟ جواب: اس بینک کا قرضوں پر نفع اور قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ وصول کرنا یہ سب سود ہے۔ لہذا اس طرح کے بینک میں ملازمت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ گناہ اور ظلم کی باتوں میں تعاون ہے اور ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ‌ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ ۖ إِنَّ ٱللّٰهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿٢﴾ (المائده 5/2) ’’اور نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔‘‘ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا: (هُمْ سَوَاءٌ) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598) ’’یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔‘‘ اگر آپ کو شرعی حکم کا علم نہ تھا تو آپ نے بینک سے جو تنخواہ لی ہے یہ حلال ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَأَحَلَّ ٱللّٰهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّ‌مَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰا۟ ۚ فَمَن جَآءَهُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّهِۦ فَٱنتَهَىٰ فَلَهُۥ مَا سَلَفَ وَأَمْرُ‌هُۥٓ إِلَى ٱللّٰهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِ‌ ۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ ﴿٢٧٥﴾ يَمْحَقُ ٱللّٰهُ ٱلرِّ‌بَو‌ٰا۟ وَيُرْ‌بِى ٱلصَّدَقَـٰتِ ۗ وَٱللّٰهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ‌ أَثِيمٍ ﴿٢٧٦﴾ (البقرة 2/275-276) ’’اللہ نے سودے کوحلال کیا ہے اور سود کو حرام تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آ گیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اس کا، اور (قیامت میں) اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں(جلتے ) رہیں گے۔ اللہ سود کو نابود ( یعنی بے برکت ) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ اور اگر آپ کو علم تھا کہ یہ کام جائز نہیں تو پھر آپ نے بینک سے جس قدر رقم لی ہے وہ ساری رقم فلاحی اداروں اور فقراء وغیرہ میں تقسیم کر دیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ کریں کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے سامنے سچی پکی توبہ کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول کر کے اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ تُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا عَسَىٰ رَ‌بُّكُمْ أَن يُكَفِّرَ‌ عَنكُمْ سَيِّـَٔاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِ‌ى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ‌) (التحريم 66/8)
Flag Counter