Maktaba Wahhabi

70 - 531
الصالقۃ: وہ عورت جو مصیبت کے وقت چیختی چلاتی ہے، الحالقۃ: وہ عورت جو مصیبت کے وقت اپنے بال مونڈتی ہے اور الشاقۃ کہتے ہیں اس عورت کو جو مصیبت کے وقت اپنے کپڑے پھاڑتی ہے۔ یہ مستحب ہے کہ کھانا تیار کر کے میت والوں کے گھر بھیجا جائے تاکہ ان کی اعانت اور دلجوئی ہو سکے، کیونکہ وہ اپنے عزیزکی وفات کے صدمے اور تعزیت کے لیے آنے والے لوگوں سے ملنے کی وجہ سے مشغول ہوتے ہیں اور کھانا وغیرہ تیار نہیں کر سکتے۔ امام احمد، ابو داود، ترمذی اور اور ابن ماجہ نے صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اصْنَعوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فإنَّهُ قَدْ أتاهُمْ أمْرٌ يشغَلُهمْ) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب صنعة الطعام لاهل الميت‘ ح: 3132) ’’جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو بلاشبہ انہیں ایک ایسی مصیبت در پیش ہے جس نے انہیں (اور کاموں سے) مشغول کر دیا ہے۔‘‘ عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: (فَمَا زَالَتْ سُنَّةً حَتَّى كَانَ حَدِيثًا فَتُرِكَ) (سنن ابن ماجه‘ الجنائز‘ باب ما جاء في الطعام يبعث...الخ‘ ح: 1611) ’’یہ سنت (ہم میں) ہمیشہ رہی حتیٰ کہ اسے معمولی بات سمجھتے ہوئے ترک کر دیا گیا۔‘‘ گھر والوں کا لوگوں کے لیے کھانا تیار کرنا خواہ وہ وارثوں کے مال سے ہو یا میت کے ثلث مال سے یا کسی اور شخص کی طرف سے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ یہ خلاف سنت بھی ہے اور عمل جاہلیت بھی اور پھر اس سے ان کی مصیبت و مشغولیت میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: (كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ)(سنن ابن ماجة‘ الجنائز‘ باب ما جاء في النهي عن الاجتماع...الخ‘ ح: 1612 ومسند احمد: 2/204 واللفظ له) ’’ہم میت کی تدفین کے بعد اہل میت کے پاس اجتماع اور ان کے کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے۔‘‘ باقی رہا سوگ تو کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حرام ہے ہاں البتہ بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ عدت کی ساری مدت سوگ میں گزارے، اس لیے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے: (لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ؛ إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا) (صحيح البخاري‘ الطلاق‘ باب تحد المتوفي عنها اربعة اشهر و عشرا‘ ح: 5334 و صحيح مسلم‘ الطلاق‘ باب وجوب الاحداد في عدة الوفاة...الخ‘ ح: 1486) ’’کسی بھی عورت کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین راتوں سے زیادہ سوگ منائے ہاں البتہ بیوی اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس تک سوگ منائے۔‘‘ عورتوں کا ایک مکمل سال سوگ کا اظہار کرنا تو یہ اسلامی شریعت کے خلاف ہے اور زمانہ ٔجاہلیت کی وہ عادت ہے جسے اسلام نے باطل قرار دیا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کی ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس رسم کا انکار کر دیا جائے اور لوگوں کو
Flag Counter