Maktaba Wahhabi

87 - 531
بھی بدعت ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ میت کے گھر صرف اس لیے جانا چاہیئے کہ ان سے تعزیت کی جائے، ان کے لیے صبر کی دعا اور میت کی مغفرت کی دعا کی جائے۔ باقی رہا ماتم کے لیے یا اجتماعی خصوصی دعا کے لیے یا قرآن خوانی کے لیے جمع ہونا تو یہ بے اصل ہے۔ اگر یہ نیک کام ہوتا تو سلف صالح یقینا اسے سر انجام دیتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا کرنا ہرگز ہرگز ثابت نہیں ہے۔ غزوہ موتہ کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الہٰی حضرت جعفر بن ابی طالب، حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے حضرات صحابہ کرام کو بھی ان کی شہادت کی بابت بتایا، ان کے لیے دعا فرمائی کہ ’’اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو۔‘‘ آپ نے اس موقع پر نہ تو لوگوں کو جمع فرمایا، نہ دسترخوان سجایا اور نہ ماتم کا اہتمام کیا، الغرض اس موقع پر آپ نے قطعا ایسا کوئی کام نہیں کیا، حالانکہ یہ تینوں بہترین اور افضل صحابہ کرام میں سے تھے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ماتم کا اہتمام نہیں کیا گیا حالانکہ آپ تمام صحابہ کرام میں سے سب سے افضل تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو ان کی شہادت پر بھی صحابہ کرام نے ماتم کا اہتمام نہیں کیا، لوگ جمع ہوئے نہ ہی قرآن خوانی کی گئی، اسی طرح جب حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اپنے اپنے دور میں شہید ہوئے تو ان کی شہادت پر بھی لوگ مخصوص دنوں میں نہ جمع ہوئے اور نہ اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا اور نہ ہی ان کے لیے کھانوں کے پکانے کا انتظام کیا گیا۔ میت کے قریبی رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے لیے یہ ضرور مستحب ہے کہ وہ کھانا پکا کر میت کے اہل خانہ کے پاس بھیجیں جیسا کہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: (اصْنَعوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فإنَّهُ قَدْ أتاهُمْ أمْرٌ يشغَلُهمْ) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب صنعة الطعام لاهل الميت‘ ح: 3132) ’’آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ انہیں ایک ایسی مصیبت در پیش ہے جس نے انہیں (اور کاموں سے) مشغول کر دیا ہے۔‘‘ اہل میت مصیبت کی وجہ سے مشغول ہوتے ہیں لہذا اگر کھانا تیار کر کے ان کے ہاں بھیج دیا جائے تو یہ حکم شریعت کے مطابق ہے لیکن یہ طرز عمل کہ وہ پہلے ہی مصیبت میں مبتلا ہیں اور انہیں مزید پریشان کیا جائے کہ وہ لوگوں کو کھانا کھلائیں یہ خلاف سنت بلکہ بدعت ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ)(سنن ابن ماجة‘ الجنائز‘ باب ما جاء في النهي عن الاجتماع...الخ‘ ح: 1612 ومسند احمد: 2/204 واللفظ له) ’’ہم دفن کے بعد اہل میت کے پاس جمع ہونے اور کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کیا کرتے تھے۔‘‘ اور نوحہ حرام ہے، نوحہ کے معنی بلند آواز سے رونا ہے۔ نوحہ کی وجہ سے میت کو قبر میں عذاب ہوتا ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے، البتہ اگر شدت غم سے آنکھیں اشکبار ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ وباللہ التوفیق۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
Flag Counter