Maktaba Wahhabi

95 - 531
جواب: اولا: سنت یہ ہے کہ انسان جب فوت ہو جائے تو چہرے سمیت اس کے سارے جسم کو ڈھانپ دیا جائے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: (أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ سُجِّيَ بِبُرْدٍ حِبَرَةٍ) (صحيح البخاري‘ اللباس‘ باب البرود والحبر والشملة‘ ح: 5814 وصحيح مسلم‘ الجنائز‘ باب تسجية الميت‘ ح: 942 ومسند احمد: 6/89‘ 153) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وفات فرما گئے تو آپ کے جسد اطہر کو ایک (یمنی) چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔‘‘ صحابہ کرام میں بھی یہی امر معروف تھا اور یہ عہد نبوی کے عمل ہی کا تسلسل تھا، امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ’’اس پر پوری امت کا اجماع ہے کہ میت کو ڈھانپ دیا جائے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ میت کی حفاظت کی جائے اور اس کی صورت میں اگر کوئی تبدیلی رونما ہو تو اسے آنکھوں سے اوجھل رکھا جائے اور میت کا جن کپڑوں میں انتقال ہوا ہو انہیں اتارنے کے بعد اسے ڈھانپا جائے تاکہ اس کپڑوں کی وجہ سے اس کے جسم میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ سوال میں ایک یا ایک سے زیادہ ایام تک میت کا چہرہ کھلا رکھنے کے بارے میں جو پوچھا گیا ہے تاکہ لوگ اس کا دیدار کر سکیں، تو یہ اسلامی طریقے اور مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔اگر میت کے گھر والے تجہیز و تدفین میں تاخیر کئے بغیر اس کا چہرہ کھلا رکھ کر دیکھنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: (لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ أَبْكِي، وَيَنْهَوْنِي عَنْهُ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَنْهَانِي) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب الدخول علي اميت بعد الموت...الخ‘ ح: 1244 وصحيح مسلم‘ فضائل الصحابة‘ باب من فضائل عبداللّٰه بن عمرو بن حرام...الخ‘ ح: 2471) ’’جب میرے والد شہید ہوگئے تو میں ان کے چہرے سے کپڑے کو ہٹاتا اور روتا تھا، لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: (رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ، حَتَّى رَأَيْتُ الدُّمُوعَ تَسِيلُ) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب في تقبيل الميت‘ ح: 3163) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ عثمان بن مظعون کو بوسہ دے رہے تھے جب کہ وہ فوت ہو چکے تھے اور میں نے آپ کے آنسو بہتے ہوئے بھی دیکھے۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو وہ سیدھے وہاں تشریف لے آئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی میت پاک دھاری دار (یمنی) چادر سے ڈھانپ کر رکھی ہوئی تھی، انہوں نے چہرہ اقدس سے کپڑا ہٹایا اور جھک کر بوسہ دیا اور پھر رونے لگے اور فرمایا: (بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا نَبِيَّ اللّٰهِ ! لَا يَجْمَعُ اللّٰه عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ ) (صحيح البخاري‘ الجنائز‘ باب الدخول علي الميت بعد الموت اذا ادرج في اكفاته‘ ح: 1241‘1242) ’’اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپ پر نثار ہوں اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں فرمائے گا۔‘‘ ثانیا: جب یقین ہو جائے کہ موت واقع ہو چکی ہے تو پھر سنت یہ ہے کہ تجہیز میں جلدی کی جائے، کیونکہ اس طرح میت
Flag Counter