Maktaba Wahhabi

431 - 531
میں اختلاف ہے۔ ایک قول تو یہ ہے کہ یہ صورت ممنوع یا مکروہ ہے کیونکہ اس سے مقصود دراہم کی دراہم کے بدلے خریداری ہے اور فروخت شدہ سامان ایک ایسا واسطہ ہے جو بذات خود مقصود نہیں ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ معاملہ جائز ہے کیونکہ اس کی حاجت و ضرورت پیش آتی رہتی ہے، ہر ضرورت مند کو بغیر سود کے قرض دینے والا نہیں مل سکتا اور پھر یہ صورت ارشاد باری تعالیٰ: (وَأَحَلَّ ٱللّٰهُ ٱلْبَيْعَ) (البقرة 2/275) ’’اور اللہ تعالیٰ نے سودے کو حلال قرار دیا ہے۔‘‘ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: (يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَٱكْتُبُوهُ ۚ) (البقرة 2/282) ’’مومنو! جب تم آپس میں کسی میعاد کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو۔‘‘ کے عموم میں داخل ہے۔ شرعی اصول یہ ہے کہ تمام معاملات حلال ہیں الا یہ کہ کسی معاملہ کی حرمت کی کوئی دلیل موجود ہو اور اس معاملہ کے بارے میں ہمیں کوئی ایسی شرعی دلیل معلوم نہیں جس سے یہ حرام قرار پاتا ہو، جن لوگوں نے اس کے ممنوع یا مکروہ ہونے کی علت بیان کی ہے کہ اس سے مقصود نقدی کی بیع ہی ہوتی ہے تو یہ کوئی ایسی علت نہیں جو حرمت یا کراہت کی موجب ہو کیونکہ اکثر و بیشتر معاملات میں تاجروں کا مقصود کم نقدی کے ساتھ زیادہ نقدی کا حصول ہی ہوتا ہے اور فروخت کیا جانے والا سامان ہی اس سلسلہ میں واسطہ ہوتا ہے اور یہ عقد بیع صرف اس صورت میں ممنوع ہے جب بیع اور شراء کا تعلق مسئلہ عینہ کی طرح ایک ہی شخص سے ہو کہ اسے سود کے لیے حیلہ بنایا جاتا ہے اور اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے سے (ادھار قیمت پر) سامان خریدے اور پھر اس کو وہی سامان اس (ادھار پر خریدی ہوئی قیمت) سے کم (نقد) قیمت پر بیچ دے جو اس نے اسے ادا کرنی ہو تو یہ صورت شرعا ممنوع ہے کیونکہ یہ سود کا ایک حیلہ ہے اور اسے ہی بیع عینہ کہا جاتا ہے اور حضرت عائشہ [1]اور ابن عمر رضی اللہ عنہما[2] سے مروی حدیث اس کی ممانعت کی دلیل ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تورق جسے بعض لوگ ’’وعدہ‘‘ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں یہ بالکل ایک دوسرا معاملہ ہے جو بیع عینہ کی جنس سے نہیں ہے کیونکہ اس میں تو خریدار نے ایک شخص سے سودا ایک مدت کے ادھار پر خریدا ہے اور پھر کسی دوسرے کو نقد بیچ دیا ہے کیونکہ اسے نقدی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سود کا حیلہ نہیں ہے کیونکہ اس میں مشتری اور بائع الگ الگ ہیں لیکن اکثر لوگوں کو چونکہ اس مسئلہ میں شریعت کے تقاضا کا علم نہیں ہوتا اس لیے کچھ لوگ تو ایسا سودا بیچ دیتے ہیں جو ان کے پاس موجود ہی نہیں ہوتا اور سودا کرنے کے بعد خریدتے اور پھر اسے خریدار کے سپرد کرتے ہیں اور بعض خرید کر اسے بائع کی جگہ ہی پر یعنی شرعی قبضہ میں لیے بغیر فروخت کر دیتے ہیں اور یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: (لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في الرجل بيع ما ليس عنده‘ ح: 3503)
Flag Counter