Maktaba Wahhabi

432 - 531
’’جو چیز تمہارے پاس موجود ہی نہ ہو تو اسے نہ بیچو۔‘‘ نیز نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے: (لا يحل سلف و بيع‘ وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في الرجل بيع‘ ماليس عنده‘ ح: 3504) ’’سلف و بیع حلال نہیں اور اس چیز کی بیع بھی حلال نہیں ہے جو تمہارے پاس موجود ہی نہ ہو۔‘‘ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے: (مَنِ اشْتَرَى طَعَامًا فَلا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب الكيل علي البائع والمعطي‘ ح: 2126 وصحيح مسلم‘ البيوع‘ باب بطلان بيع المبيع قبل القبض‘ ح: 1525‘1526) ’’جو شخص کھانے کی کوئی چیز خریدے تو وہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں نہ لے لے۔‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم کھانے کی اشیاء اٹکل (اندازے) سے خریدا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف قاصد بھیج دیتے جو ہمیں منع کرتے کہ ہم انہیں اس وقت تک نہ بیچیں جب تک ہم ان کو اپنی جگہوں پر منتقل نہ کر لیں۔‘‘[1] نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ بھی ثابت ہے: ( نَهَى أَنْ تُبَاعَ السِّلَعُ حَيْثُ تُبْتَاعُ، حَتَّى يَحُوزَهَا التُّجَّارُ إِلَى رِحَالِهِمْ ) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في بيع الطعام قبل ان يستوفي‘ ح: 3499) ’’آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ سامان کو وہاں بیچا جائے جہاں خریدا گیا ہو، حتیٰ کہ تاجر اسے اپنی جگہوں پر منتقل نہ کر لیں۔‘‘ ان اور ان کے ہم معنی دیگر احادیث سے ایک طالب حق کے لیے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے سودے کو بیچے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو اور پھر اسے خود ہی خرید لے بلکہ واجب یہ ہے کہ اس کی بیع کو مؤخر کرے یعنی خرید کر پہلے اسے اپنی ملکیت میں لے۔ ان احادیث سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ جو یہ کرتے ہیں کہ سودے کو بائع کی جگہ ہی بیچ دیتے ہیں اور اسے اپنی جگہ یا بازار میں منتقل نہیں کرتے تو یہ جائز نہیں، کیونکہ اس میں سنت نبوی کی مخالفت، معاملات کے ساتھ مذاق اور شریعت مطہرہ کی خلاف ورزی ہے، اور یہ بھی کہ اس کے خرابی اور برائی کے علاوہ اور بھی بہت سے بھیانک انجام ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں شریعت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی مخالفت کرنے سے بچائے۔
Flag Counter