Maktaba Wahhabi

106 - 829
(اپنی آنکھوں سے) دیکھتی تھی۔‘‘ [1] اور مسلم کی روایت میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے مَنی کو کھرچ دیا کرتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی کپڑے میں نماز ادا فرماتے تھے۔ [2] مسلم ہی کی روایت ہے کہ جب مَنی خشک ہوجاتی تو میں اپنے ناخن سے اسے کھرچ کر کپڑے سے اتار دیتی۔[3]اس حدیث کی تخریج میں یہ لکھا ہے کہ مَنی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں خواہ خشک ہو یا تر بلکہ جب وہ خشک ہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے صاف کردے ہاتھ یا کپڑے کے ٹکڑے سے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الأوطار میں کہا ہے کہ مَنی کو دھو کر ہاتھ کے ساتھ صاف کرکے وغیرہ طریقوں سے زائل کرنا ثابت ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ یہ لعاب دہن کی طرف پاک ہے۔ اس نظریہ کی تائید میں امام شافعی، امام احمد رحمہما اللہ ائمہ میں سے اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت علی، سعد بن وقاص، حضرت ابن عمر اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ جب کہ دوسرے نظریے کی تائید ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ نے کی ہے۔ دونوں مکتبِ فکر کے پاس دلائل ہیں۔ آپ سے اس مسئلہ کی وضاحت ہے تاکہ کسی ایک نقطہ پر ذہن کو مرکوز کیا جاسکے۔ جواب: مَنی پاک ہے یا ناپاک؟ اس سلسلہ میں وارد متعارض روایات کو ائمہ کرام نے مختلف انداز میں تطبیق دی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں، مَنی کو دھونے اور کھرچنے کی روایات میں تعارض نہیں جو لوگ مَنی کی طہارت کے قائل ہیں ان کے ہاں وجہ جمع واضح ہے۔ مَنی کا دھونا واجب نہیں استحباب نظافت پر محمول ہے۔ یہ امام شافعی، احمد اور اصحابِ حدیث کا طریقہ کار ہے۔ اس طرح جو لوگ اس کی نجاست کے قائل ہیں ان کے نزدیک وجہِ جمع یوں ہے۔ جس حدیث میں مَنی کو دھونے کا ذکر ہے یہ محمول ہے اس صورت پر کہ مَنی تَر ہو اور کھرچنا اس صورت میں ہے جب کہ وہ خشک ہو، یہ حنفیہ کا طریقہ ہے۔ لیکن پہلا طریقہ زیادہ راجح ہے، کیونکہ اس صورت میں حدیث اور قیاس
Flag Counter