Maktaba Wahhabi

174 - 829
نہ ہو غسل لازم ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ((اِذَا التَقَی الخِتَانُ الخِتَانَ، فَقَد وَجَبَ الغُسلُ)) [1] ’’دونوں (کی) شرم گاہیں آپس میں مل جائیں تو غسل واجب ہوگیا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِذَا جَلَسَ بَینَ شُعَبِھَا الأَربَعِ ثُمَّ جَھَدَھَا، فَقَد وَجَبَ الغُسلُ)) [2] ’’ادمی جب عورت کے ہاتھ پاؤں کے درمیان بیٹھ جائے۔ پھر اُسے مشقت میں ڈال دے تو غسل واجب ہوگیا۔‘‘ ان دلائل سے معلوم ہوا کہ وجوب ِغسل کے لیے دخول شرط ہے۔ مباشرت کے فوراً بعد عورت کو حیض جاری ہوجانا: سوال: مباشرت کے بعد عورت نے ابھی غسل نہیں کیا اور حیض جاری ہوگیا۔ اب کیا اسے جنابت کا غسل فورا کرنا چاہئے یا حیض ختم ہونے کے بعد... یا دونوں کے لئے ایک ہی غسل کافی ہے؟ جواب: غسل جنابت ہی غسل جمعہ کے لئے کافی ہے بشرطیکہ اس کی حدود کے اندر،یعنی طلوعِ فجر کے بعد ہو کیونکہ غسل سے مقصود بدن کی نظافت اور بد بو کا ازالہ ہے، سو وہ حاصل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں یو ں باب قائم کیا :باب فضل الغسل یوم الجمعۃ اور امام شوکانی رحمہ اللہ الدراری (۱؍۷۴) اور نیل الاوطار (۱؍۲۷۴) میں جمعہ کے لیے وجوبِ غسل کے قائل ہیں لیکن السیل (۱؍۱۲۲) میں انہوں نے وجوب سے رجوع کر کے کہا ہے کہ ’’یہ صرف مستحب ہے۔‘‘ جب کہ غسل جنابت بلا اختلاف واجب ہے، لہٰذا غیر واجب کے واجب کے ضمن میں داخل ہونے میں کوئی اشکال نہیں۔ اس حالت میں عورت کے لیے ضروری ہے کہ فوری غسل جنابت کرے اور حیض کا غسل اس وقت کرے گی جب حیض سے فارغ ہو گی، دونوں غسلوں کے احکام شریعت میں بسط وتفصیل سے موجود ہیں ان کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ حیض ، نفاس، اور جنابت غسل کاطریقہ ایک ہی ہے یا مختلف؟
Flag Counter