Maktaba Wahhabi

579 - 829
(( فَلَم یَخُصَّ تَشُھُّدًا دُونَ تَشُھُّدٍ۔ فَفِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی مَشرُوعِیَّۃِ الصَّلَاۃِ عَلَیہِ فِی التَّشھُّدِ الأَوَّلِ أَیضًا۔ وَ ھُوَ مَذھَبُ الاِمَامِ الشَّافِعِی، کَمَا نَصَّ عَلَیہِ فِی کِتَابِہٖ الأمّ وَ ھُوَ الصَّحِیحُ عِندَ أَصحَابِہٖ ، کَمَا صَرَّحَ بِہِ النَّوَوِیُّ فِی المَجمُوع، (۳؍۴۶۰)وَ قَد جَائَ ت أَحَادِیثُ کَثِیرَۃٌ فِی الصَّلَاۃِ عَلَیہِ فِی التَشَھُّدِ، وَ لَیسَ فِیھَا التَّخصِیصُ المُشَارُ إِلَیہِ ، بَل ھِیَ عَامَّۃٌ تَشمَلُ کُلَّ تَشَھُّدٍ… وَ لَیسَ لِلمَانِعِینَ المُخَالِفِینَ أَیَّ دَلِیلٍ یُحتَجُّ بِہٖ )) [1] یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے درود پڑھنے کے لیے کسی ایک ’’تشہد‘‘ کو خاص نہیں کیا۔ پس اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے، کہ پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا مشروع ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک بھی یہی ہے جس طرح کہ ’’ الام‘‘ میں منصوص ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب کے نزدیک بھی یہی بات صحیح ہے جس طرح کہ نووی نے ’’المجموع‘‘(۳؍۴۶۰)میں تصریح کی ہے ۔ نیز بہت سی احادیث میں تشہد میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا تذکرہ موجود ہے، لیکن ان میں مشارٌ الیہ تخصیص کا نام و نشان تک نہیں، بلکہ وہ عام اور ہر تشہد کو شامل ہیں اور مخالفین کے پاس قابلِ احتجاج کوئی دلیل موجود نہیں۔ مانعین کے دلائل کا جائزہ: اس سلسلے میں مانعین کے بھی چند دلائل ہیں۔ ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ جس طرح کہ سائل نے بھی ان کی نشاندہی کی ہے۔ چنانچہ ’’سنن ابو داؤد‘‘ میں حدیث ہے: ((عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کَانَ فِی الرَّکعَتَینِ الاَولَیَینِ کَأَنَّہٗ عَلَی الرَّضفِ۔ قَالَ: قُلنَا: حَتّٰی یَقُومَ۔ قَالَ: حَتّٰی یَقُومَ )) [2] یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دو رکعتوں میں ایسے ہوتے تھے، گویا کہ گرم پتھر پر ہیں۔ ہم کہتے ابھی اٹھے۔‘‘ اور ترمذی کی روایت میں ہے، شعبہ نے کہا: پھر سعد نے کسی شَے کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔ پس میں نے کہا ’’حتی یقوم‘‘ وہ بھی کہہ رہے تھے ’حتی یقوم‘ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اہلِ علم کا
Flag Counter