Maktaba Wahhabi

446 - 829
متعارض ہوں، وہاں تطبیق کے علاوہ توفیق کا عمل بھی مناسب ہوتا ہے اور دلائل متعارضہ کا حق یہی ہے کہ مسئلہ میں وسعت رہنے دی جائے، اور کسی کو کوئی خاص اور معین صورت اختیار کرنے پر نہ مجبور کیا جائے، اور نہ ہی دوسری صورت اپنانے والوں پر طعن و تشنیع کی جائے اور نہ ہی فریقین سے کسی کو بدعتی یا تارکِ حدیث کہا جائے۔ کیونکہ سلامتی کی راہ یہی ہے۔ ( ہفت روزہ اہلِ حدیث:۲۰؍ اکتوبر۔۳ نومبر۱۹۷۸ء ) تعاقب از مولانا حافظ ثناء اللہ خان صاحب فروعی مسائل میں اہلِ حدیث کا طرزِ فکر وعمل: مؤقر جریدہ ہفت روزہ ’’ اہلِ حدیث‘‘ لاہور مؤرخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں قرآنی آیات کے جواب کے سلسلہ میں میری رائے کے ساتھ، ہمارے محترم دوست مدیراعلیٰ اہلِ حدیث نے اپنی مخالفانہ رائے کا اظہار بھی ضروری سمجھا ہے، اور اس کے لیے انھوں نے جماعت اہلِ حدیث کی دو مایہ ناز ہستیوں کے فتاویٰ کی اشاعت بھی کی ہے، تاکہ اپنے مدعا کو تقویت دے سکیں۔ جہاں تک ان مبارک ہستیوں کے عزت و احترام اور علم و فضل اور اعلیٰ مقام کا تعلق ہے، ہمیں ان سے کوئی نسبت نہیں، لیکن موصوف مدیر ِ اعلیٰ نے ان کے فتویٰ کو جس انداز میں شائع کیا ہے اور اس ضمن میں اپنی طرف سے جو اصولِ بحث (ضعیف حدیث کے قابلِ عمل ہونے کی) اٹھائی ہے۔ موجودہ علمی انحطاط کے دور میں وہ کئی فتنوں کا دروازہ کھول سکتی ہے، اس لیے میں نے مناسب سمجھا، کہ کم از کم اس بارے میں اہلِ حدیث کے اندازِ فکر کی وضاحت کردوں۔کیونکہ اہلِ حدیث کا نہج فکر مخصوص ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی مسئلہ میں اہلِ حدیث علماء کی دو رائے ہوں۔ لیکن اہلِ حدیث کا مخصوص فکر اگر اپنے امتیازات کھو بیٹھے، تو پھر اس مکتب ِ فکر کے وجود کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ جیسا کہ بعض موقعوں پر عامۃ الناس علمائے اہلِ حدیث کی مختلف آراء دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں اور اس تذبذب میں پڑ جاتے ہیں، کہ اس میں سے کون سا مسلک اہلِ حدیث کا ہے ، حالانکہ مسلک اہلِ حدیث پیش آمدہ مسائل کے حل میں صرف ایک مخصوص طرزِ عمل سے واسطہ رکھتا ہے۔ جس کی حفاظت علماء اہلِ حدیث پر فرض ہے ۔ ہمارے نزدیک آراء کے باہمی تفاوت کی زیادہ اہمیت نہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم مثالیں پیش کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ غالباً مدیراعلیٰ کو بھی ہمارے اصل اصول سے اختلاف نہیں ہوگا۔ اس تمہید کے بعد ہم اپنے جائزہ کو ’’اہلِ حدیث‘‘ کے علمی اسلوب کی وضاحت کی غرض سے صرف دو
Flag Counter