Maktaba Wahhabi

395 - 829
اور وہ یہ ہے کہ ’’تعوذ‘‘ صرف پہلی رکعت میں پڑھی جائے ۔اور صاحب’’منتقی الاخبار‘‘ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے: ((باب افتتاحُ الثانیۃ بالقراء ۃ من غَیرِ تَعُوُّذٍ ، وَ لَا سَکتَۃ ))یعنی دوسری رکعت کا آغاز ’’تعوذ‘‘ اور ’’سکتے‘‘ کے بغیر ہونا چاہیے۔ پھر بحوالہ ’’مسلم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔ (( کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا نَھَضَ فِی الرَّکعَۃِ الثَّانِیَۃِ، اِفتَتَحَ القِرَائَ ۃَ بِ ﴿ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ﴾۔ وَ لَم یَسکُت)) [1] یعنی ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوسری رکعت میں اُٹھ کھڑے ہوتے تو بلاخاموشی ﴿ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ﴾ سے قرأت کا افتتاح کرتے۔‘‘ اس حدیث کی شرح میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی عَدَمِ مَشرُوعِیَّۃِ السَّکتَۃِ قَبلَ القِرَائَ ۃِ فِی الرَّکعَۃِ الثَّانِیَّۃِ۔ وَ کَذَالِکَ عَدَمُ مَشرُوعِیَّۃِ التَّعَوُّذِ فِیھَا ، وَ حُکمُ مَا بَعدَھَا مِنَ الرَّکعَاتِ حُکمُھَا )) [2] یعنی حدیث ہذا اس بات پر دال ہے کہ دوسری رکعت کی قرأت سے پہلے ’’سکتہ‘‘ غیر مسنون ہے۔ اسی طرح اس میں ’’تعوذ‘‘ پڑھنی بھی غیر مشروع ہے اور بعد والی رکعتوں کا وہی حکم ہے جو اس رکعت کا حکم ہے۔ لہٰذا زیادہ واضح بات یہی معلوم ہوتی ہے، کہ ’’تعوذ‘‘ صرف پہلی رکعت میں پڑھی جائے۔ نماز میں سورۃ فاتحہ شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اللہ ‘‘پڑھنی چاہیےیا نہیں ؟ سوال: نماز میں سورہ فاتحہ شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اﷲ‘‘ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ ہماری مسجد کے امام صاحب فرماتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ سے پہلے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ نہیں پڑھنی چاہیے؟ جواب: ’’بسم اﷲ‘‘ سورہ فاتحہ کا جزء ہے۔ لہٰذا ’’سورہ فاتحہ‘‘ کے ساتھ اس کا پڑھنا ضروری ہے۔ مولوی صاحب موصوف نے ممکن ہے جَہری پڑھنے کی نفی کی ہو، کہ اسے سِرّی پڑھنا چاہیے۔ بایں صورت ان کا موقف درست ہے اور اگر وہ مطلق نفی کے قائل ہیں، تو وہ غلطی پر ہیں۔ اس موقف سے رجوع کرنا چاہیے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! تفسیر فتح القدیر وغیرہ۔ کیا سورۃ فاتحہ کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے؟ سوال: نماز میں سورہ فاتحہ شروع کرنے سے پہلے ’’بسم اﷲ‘‘ پڑھنی چاہیے یا نہیں؟ ہماری مسجد کے امام
Flag Counter