Maktaba Wahhabi

244 - 829
((اَلَّذِی یَظھَرُ أَنَّ النَّاسَ أَخَذُوا بِفِعلِ عُثمَانَ فِی جَمِیعِ البِلَادِ۔ اِذ ذَاکَ لِکَونِہٖ خَلِیفَۃَ مُطَاعِ الأَمرِ)) (۲؍۳۹۴) ’’ظاہر یہی ہے کہ یہ اذان سب شہروں میں جاری ہو گئی، کیونکہ وہ قابلِ اطاعت خلیفہ تھے۔‘‘ استاذی المکرم محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اگرچہ ابتداء اس کی لوگوں کی کثرت کی وجہ سے تھی ۔ مگر سب شہروں میں اس کا پھیلنا دلالت کرتا ہے کہ آخر لوگوں کی کمی بیشی ضروری نہیں سمجھی گئی۔ پس ثابت ہوا کہ اب بھی یہ اذان درست ہے۔ خواہ کم ہوں یا زیادہ۔ ہاں ضروری نہیں۔ اگر کوئی نہ دینی چاہے نہ دے۔ مگر دینے والے پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ بعض لوگ جو کہتے ہیں کہ بلند جگہ بازار میں دینی چاہیے، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسی جگہ میں ہی دی تھی۔ تو یہ ٹھیک نہیں۔ اذان سے مقصود إعلام ہے، یعنی لوگوں کو بذریعہ توحید اعلان ہے۔ اس میں بازار یا کسی جگہ کی خصوصیت کو کوئی دخل نہیں۔ مدینہ شریف میں بازار مسجد کے ساتھ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے موزوں جگہ پر دلوادی۔ اس طرح ہر شہر کی جامع مسجد میں موزوں جگہ دیکھ لینی چاہیے۔ (فتاویٰ اہلِ حدیث:۲؍۱۰۶) بہرصورت مذکورہ بالا مُستندات کی روشنی میں جمعہ کی پہلی اذان دینے کا جواز ہے۔(واللہ اعلم) [1] تعاقب۔جمعہ کی پہلی اذان کا شرعی حکم (از۔ مولانا عبید اﷲ عفیف ، شیخ الحدیث مسجد چینیانوالی۔لاہور) سوال: زید اس بات کا قائل و فاعل ہے کہ جمعۃ المبارک کی ایک اذان سنتِ نبوی ، سنتِ صحابہ( رضی اللہ عنہم) اور
Flag Counter