Maktaba Wahhabi

680 - 829
ٹھہرنا لازم کرلے گی۔ مسلمانوں کی عورتیں گھروں میں نماز پڑھا کرتی تھیں،جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَمنَعُو إِمَائَ اللّٰہِ مَسَاجِدَ اللّٰہِ، وَ بُیُوتُھُنَّ خَیرٌ لَھُنَّ )) [1] ’’اﷲ کی باندیوں کو اﷲ کی مسجدوں( میں نماز پڑھنے) سے مت روکو، البتہ ان کے گھر ان کے لیے زیادہ بہتر ہیں۔‘‘ انھیں قمیضوں کے ساتھ صرف دوپٹے اوڑھنے کا حکم تھا، انھیں ایسی چیز پہننے کا حکم نہیں دیا گیا، جس سے وہ اپنے پاؤں ڈھانپیں ، نہ موزے کا حکم دیا گیا نہ جراب کا اور نہ ہاتھوں کو ڈھانپنے کے لیے دستانے وغیرہ پہننے کا حکم دیا گیا۔ تو یہ اس بات کی دلیل ہے، کہ عورت کے لیے نماز میں ان اعضاء کا ڈھانپنا واجب نہیں ہے، جب وہاں غیر مرد نہ ہوں۔‘‘ (انتہیٰ) ان دلائل کی روشنی میں مولانا اثری( حفظہ اللہ ) کو میرا مشورہ ہے، کہ اپنے موقف پر نظر ثانی فرمائیں۔ ساری خیر وبرکت اسی میں ہے۔ عورت کے پورے جسم کو جس قید و بند میں آپ جکڑنا چاہتے ہیں شرعاً و عملاً اس کا کوئی وجود نہیں۔ جس دور کی عورتوں کو بمشکل ایک چادر میسر آتی تھی ، انھیں ہر وقت دستانوں اور جرابوں کا پابند کرنا قرین قیاس نہیں۔اﷲ رب العزت ہم سب کی راہنمائی فرمائے۔(آمین) عورت کے لیے نماز میں پاؤں کا ڈھانپنا : سوال: کیا عورت کے لیے نماز میں پاؤں کا ڈھانپنا شرط ہے یا کہ نہیں؟ جواب: نماز میں عورت کے لیے پاؤں کا ڈھانپنا شرط نہیں۔ ہاں البتہ ’’سنن ابوداؤد‘‘ کی ایک روایت میں پاؤں کی پشتوں کو ڈھانپنے کا ذکر موجود ہے، لیکن ثقہ راویوں نے اس کو حضرت اُمّ سلمہ پر موقوف قرار دیا ہے۔ ان کی مخالفت صرف عبد الرحمن بن عبد اﷲ بن دینار نے کی ہے۔ اس نے اس کو’’عن محمّد بن زید، عن أم سلمۃ‘‘ مرفوع بیان کیا ہے۔ثقات کی مخالفت کی وجہ سے زرقانی نے اس کی روایت کو شاذ کہا ہے۔ یہ راوی اگرچہ صدوق ہے، لیکن غلطی کر جاتا ہے، ممکن ہے اس حدیث کے مرفوع بیان کرنے میں بھی اس سے غلطی سرزد ہوگئی ہو۔ عبد الحق نے بھی اس کو معلول کہا ہے، کیونکہ مالک رحمہ اللہ اور دیگر لوگوں نے اس کو
Flag Counter