Maktaba Wahhabi

447 - 829
نکتوں پر محدود رکھیں گے۔ اوّلاً: مدیر ِ اعلیٰ کا یہ فرمان محدثین کے نزدیک کہاں تک درست ہے کہ : ’’ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں، استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘ ثانیاً: مسئلہ مذکورہ کی وضاحت کے لیے محترم بزرگوں کے فتوؤں کی اشاعت کا انداز تقلیدی تو نہیں ہے، جب کہ خود ہی یہ بزرگ غیر منقسم ہندوستان میں مُقَلّدین کے خلاف صف آراء رہے۔ شیخ الکل میاں صاحب رحمہ اللہ نے ’’معیار الحق‘‘ کتاب لکھی اور حضرت الاستاذ محدث روپڑی رحمہ اللہ کی بیشتر تصانیف کا محور یہی موضوع رہا۔ پہلے نکتہ کے لیے ہم اہلِ حدیث کے متقدمین اور متاخرین، راسخین فی العلم کے چند ایک ارشادات کا مختصر ذکر ہی کافی سمجھتے ہیں۔ ورنہ اس موضوع پر ان بزرگوں نے اس قدر تفصیلی بحثیں کی ہیں کہ ایک مستقل تصنیف ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہے اور اس موضوع پر (ان شاء اللہ) کسی فرصت میں ایک مقالہ ہدیۂ ناظرین کروں گا۔ فی الحال ائمہ کے چند ارشادات پیش ِ خدمت ہیں: اصولِ حدیث کی مشہور کتاب ’’قواعد التحدیث‘‘ میں علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((فقد حُکِیَ فِیہِ عَن جَمَاعَۃ مِن الأَئِمَّۃأنَّھُم لَا یَرَونَ العَمَل بِالحَدِیثِ الضَّعِیفِ مُطلَقًا، کَإِبنِ مُعِینٍ، وَالبُخَارِیِّ، وَ مُسلِمٍ، وَ اَبِی بَکرِ بنِ العَرَبِیِّ الفَقِیہِ، وَ غَیرِھِم، وَ مِنھُمُ ابنُ حَزمٍ)) یعنی ’’ائمہ اہلِ حدیث کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے، کہ ضعیف حدیث پر عمل مطلقاً ناجائز ہے (خواہ مسئلہ وجوبی ہو یا استحبابی)ان میں سے ابن معین، بخاری، مسلم، ابوبکر بن العربی رحمہما اللہ وغیرہم ہیں، ابن حزم رحمہ اللہ کی بھی یہی تحقیق ہے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ’’القاعدۃ الجلیلۃ‘‘(ص:۴)میں فرماتے ہیں: ((وَ لَم یَقُل اَحَدٌ مِنَ الأَئِمَّۃِ اِنَّہٗ یَجُوزُ اَن یُّجعَلَ الشَّیئُ وَاجِِبًا، اَو مُستَحَبًا بِحَدِیثِ ضَعِیفٍ۔ وَ مَن قَالَ ھٰذَا: فَقَد خَالَفَ الاِجمَاعَ)) یعنی ’’ائمہ میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی ضعیف حدیث سے کسی شے کو واجب یا مستحب قرار دینا جائز ہے۔ وہ اجماع کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘ گویا مدیرِ اعلیٰ کی یہ بات کہ ’’ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘ ائمہ اہلِ حدیث کے اجماع کے خلاف ہے۔ ہند میں اہلِ حدیث اندازِ فکر کے مشہور نقیب نواب صدیق حسن
Flag Counter