Maktaba Wahhabi

448 - 829
خان رحمہ اللہ اپنی عربی تفسیر ’’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: ((أَخطَأَ مَن قَالَ إِنَّہٗ یَجُوزُ التَّسَاھُلُ فِی الاَحَادِیثِ الوَارِدَۃِ فِی فَضَائِلِ الأَعمَالِ )) یعنی وہ شخص غلطی پر ہے، جو عقیدہ رکھے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف احادیث کو بھی لینا جائز ہے۔ چونکہ مدیراعلیٰ کو یہ غلطی اہل الرائے کے بعض علماء کے طرزِ عمل سے لگی ہے۔ اس لیے محدثین کے اس مسلک کی وضاحت ہم ان ہی کے حوالہ سے پیش کیے دیتے ہیں۔ چنانچہ مولانا عبد الحئی لکھنوی اپنی تصنیف ’’الاجوبۃ الفاضلہ‘‘ میں مشہور محقق جلال الدین الدوانی رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں: ((اِتَّفَقوا عَلیٰ اَنَّ الحَدِیثَ الضَّعِیف لَا یَثبُتُ بِہٖ اَحکَامُ الخَمسَۃ الشَّرعِیَّۃِ۔ وَ مِنھَا الاِستِحبَابُ)) یعنی ’’محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث سے کوئی حکم شرعی(وجوب ، حرمت ، استحباب کراہت اور اباحت) ثابت نہیں ہوتا۔ ان میں سے استحباب بھی ہے۔ ‘‘ عالم ِ اسلام کے مشہور محدث علامہ ناصر الدین البانی حفظہ اللہ متذکرہ بالا مغالطے (بعض ائمہ حدیث ضعیف حدیث سے احتجاج میں تساہل روا رکھتے ہیں) کا ازالہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں: ((وَ مَن نَقَلَ عَن اَحمَدَ انَّہٗ کَانَ یَحتَجُّ بِالحَدِیثِ الضَّعِیفِ الَّذِی لَیسَ بِصَحِیحٍ وَ لَا حَسَن، فَقَد غَلَطَ عَلَیہِ )) [1] یعنی جس نے امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے، کہ وہ ضعیف حدیث سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔ اس نے آپ پر غلط الزام لگایا ہے۔‘‘ اور علامہ احمد محمد شاکر’’ الباعث الحثیث‘‘(ص:۱۰۱)میں لکھتے ہیں: ((وَ أَمَّا مَا قَالَہُ الاِمَامُ اَحمَدُ بنُ حَنبَلٍ، وَ عَبدُ الرَّحمٰنِ بنُ مَھدِیٍ، وَ عَبدُ اللّٰہِ ابنُ المُبَارِکِ ، اِذَا رَوَینَا فِی الحَلَالِ، وَالحَرَامِ۔ شَدَدنَا۔ وَ اِذَا رَوَینَا فِی الفَضَائِلِ، وَ نَحوِھَا۔ تَسَاھَلنَا۔ فَاِنَّمَا یُرِیدُونَ بِہٖ فِیمَا أَرجَحُ (وَاللّٰہ أَعلَمُ) ان التَّسَاھُلَ إِنَّمَا فِی الأَخذِ بِالحدِیثِ الحَسَنِ الَّذِی لَم یَصِل اِلٰی دَرَجَۃِ الصِّحَّۃِ۔ فَاِنَّ الاِصطِلَاحَ مِن التفرقۃ بَینَ الصَّحِیحِ، وَالحَسَنِ، لَم یَکُن فِی عَصرِھِم مُستَقِرًّا وَاضِحًا، بَل کَانَ
Flag Counter